Freitag, 15. Juli 2011

فاصلے،قربتیں:انشائیے

 
فاصلے،قربتیں
  
انشائیے






ابا جی کے بڑے بھائی
 
اپنے بابا جی کے نام
 
جنھوں نے ایک انشائیہ نگار جیسی زندگی بسر کی

خاموشی

خاموشی

گیت  سناتے  ہیں  جھرنے  کے گرنے کا

حرف جو خاموشی کی صدا میں گرتے ہیں

    ہنگامہ اور شور زندگی کے صحیح عکاس نہیں۔ اسی طرح سنّاٹا اور ویرانی بھی زندگی کے ترجمان نہیں ہیں۔ ان کے برعکس خاموشی زندگی کی حقیقی عکاسی کرتی ہے۔ جو لوگ سنّاٹے اور خاموشی میں فرق نہیں کرپاتے وہ خاموشی کی اہمیت نہیں جان سکتے۔سنّاٹا بے روح اور بے آواز ہوتا ہے جبکہ خاموشی زندگی کی عکاس ہی نہیں، زندگی کو جنم بھی دیتی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟۔ دل کی دھڑکن کا ہر بار ایک وقفے کے ساتھ خاموشی اختیار کرنا اور پھر خاموشی کے اسی وقفے سے اگلی دھڑکن کا جنم لینا زندگی کو جنم دینا نہیں تو اور کیا ہے! پھر خاموشی سنّاٹے کی طرح بے آواز بھی نہیں بلکہ خاموشی کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ جب مکمل خاموشی ہو، ہونٹ بھی خاموش ہوں تب دو دھڑکتے دلوں کی جو گفتگو ہوتی ہے اسے اہلِ دل بخوبی جانتے ہیں۔ کوئی صوفی جب تک کسی گوشۂ خاموشی میں نہ جائے تب تک اس کے دل کے تار حقیقتِ عظمیٰ سے نہیں مل پاتے۔ کسی ہنگامہ خیز، پُرشور ماحول نے نہ کبھی دو سچے دلوں کو ملنے دیا ہے اور نہ کبھی کوئی سچا صوفی پیدا کیا ہے۔ عبادت گاہوں میں جب تک خاموشی نہ ہو عبادت کا لطف ہی نہیں آسکتا، یوں بھی خاموشی بجائے خود عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے لاؤڈاسپیکر کا استعمال عام ہوا ہے، عبادت گاہوں میں بھی شور سنائی دینے لگا ہے اور عبادتوں کا تقدس ختم ہوتا جارہا ہے۔
۔۔۔۔ عبادت کی حیثیت سے خاموشی وظیفۂ ردِّ بلا بھی ہے۔ ایسا قرض خواہ جو دو سال سے پھیرے لگانے کے بعد یہ ارادۂ بد لے کر آئے کہ آج حتمی فیصلہ کرکے جاؤں گا یا ایسا مالک مکان آئے جو گزشتہ چھ سات ماہ کا کرایا یکمشت لینے کی شرانگیزی پر تُلا بیٹھا ہو، ایسے لوگ جب ایسے بدارادوں سے آتے ہیں تو گالی گلوچ سے بھی دریغ نہیں کرتے لیکن ان کے ہر شر سے بچنے کے لئے خاموشی سب سے بہتر وظیفہ ہے۔ ایسے ابتلا کے موقع پر آپ دل ہی دل میں ’’جوابِ جاہلاں باشد خموشی‘‘ کا وِرد بھی کرسکتے ہیں۔ اگر غلطی سے آپ یہ وِرد باآوازِ بلند کربیٹھتے ہیں تو اسی وقت آپ کو خود احساس ہوجائے گا کہ خاموشی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے اور یہ حقیقت بھی آپ پر عملی صورت میں منکشف ہوگی کہ جاہلانہ کلام سے خاموشی بہتر ہے۔
۔۔۔۔آواز کی دلکشی بھی خاموشی کے پس منظر کی محتاج ہے۔ ہوٹلوں اور بازاروں میں پوری آواز کے ساتھ نشر کئے جانے والے گیت سَر میں درد پیدا کردیتے ہیں جبکہ وہی گیت آپ رات کو مکمل خاموشی کے پس منظر میں مدھم آواز سے سُنیں تو آپ خود بھی ان گیتوں کے سُروں کے ساتھ جیسے بہتے چلے جائیں گے۔ سرگوشی اور دھیمی گفتگو آواز کے خاموشی کی طرف جھکاؤ کے مظہر ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ آوازوں میں جو لطف سرگوشی اور دھیمی گفتگو میں ہے وہ بلند لہجے کی آواز میں نہیں ہے۔
۔۔ ۔۔ میرے ایک کرم فرما’’ش۔ن‘‘ بے حد دھیمی گفتگو کے عادی ہیں، اس حد تک کہ عام لوگوں کو اُن کی آواز سننے اور سمجھنے کے لئے کان اس طرح کھڑے کرنے پڑتے ہیں جیسے وہ ہمسائے کے گھر کی آوازیں سننے کی کوشش کررہے ہوں۔ لیکن میرا اور اُن کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ اور میں اکیلے ہیں اور وہ اپنے مخصوص صوفیانہ لہجے میں گفتگو کررہے ہیں۔ مجھے صرف ان کے ہونٹ ہلتے نظر آتے ہیں یا کبھی کبھار ایک آدھ لفظ کانوں تک پہنچ جاتا ہے لیکن میرے نزدیک اس لفظ کی کوئی اہمیت نہیں۔میں تو اُن کی بولتی ہوئی خموش گفتگو نہ صرف پوری طرح سنتا ہوں بلکہ خود بھی ساتھ ساتھ شریکِ گفتگو رہتا ہوں۔ ہمارے درمیان ابلاغ کا کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔
۔ ۔۔۔بعض لوگ خاموشی کو شکست کی آواز سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ اور مستقبل سے بے خبر’’حال مست‘‘ ہوتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ خاموشی تو فتح کی پیش خبری ہوتی ہے۔ جب سمندر خاموش ہو یا فضا میں ہوا خاموش ہو تب خاموشی طوفان اور آندھی کی صورت اپنا جلالی روپ دکھاتی ہے۔ سقراط نے زہر پی کر، حسینؑ نے شہید ہو کر اور ابن منصور نے سولی قبول کرکے خاموشی سے صبر کے جو عظیم نمونے دکھائے بظاہر وہ اُس عہد کے جھوٹوں اور جابرو ں کے سامنے شکست ہی تھی۔ لیکن درحقیقت ان مظلوموں اور سچوں کی خاموشی اُن کی فتح کی پیش خبری تھی جسے آنے والے وقت نے سچ ثابت کیا۔ مظلوموں کی خاموشی کی یہ سچائی ہمیشہ سے قائم ہے۔
۔۔۔ ۔خاموشی اپنے اندر معنویت کے بے پناہ امکانات رکھتی ہے جبکہ آواز کی قید میں آنے والے لفظ مخصوص اور محدود معنویت کے حصار میں آجاتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ موجودہ دور کی ماردھاڑ سے بھرپور بے معنی فلموں کے مقابلہ میں پرانے زمانے کی خاموش فلموں میں کتنی معنویت ہے۔ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق جو معنی چاہے اخذ کرلے۔ ہمارے تجریدی افسانہ نگار اگر تجرید کے ہنگاموں کی بجائے خاموش اور بے لفظ کہانیوں کی طرف توجہ کریں تو انہیں پسند کرنے والے نقاد سادہ اور صاف صفحات میں اس سے بھی زیادہ معنویت ڈھونڈ نکالیں گے جتنی وہ ان کی تجریدی کہانیوں سے نکال لاتے ہیں۔
۔۔۔ ۔انسان خاموشی کو توڑتی ہوئی ایک چیخ کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے۔ نتیجۃً ساری زندگی ہنگامہ بازی میں گزاردیتا ہے۔ہر وقت بے اطمینانی، مسئلے، پریشانی، اضطراب۔ لیکن موت کی خاموشی آتے ہی وہی پریشان حا ل انسان کتنا شانت اور کتنا پرسکون ہوجاتا ہے۔
۔۔۔ ۔اتحاد اور امن کے نام پر قائم ہونے والے مقامی، قومی اور بین الاقوامی ہر سطح کے ادارے خاموشی کی قدروقیمت سے ناآشنا ہیں۔ اسی لئے انتشار اور بدامنی کا شکار ہیں۔ کہیں کسی اسمبلی کے ممبران میں ہاتھا پائی، کہیں ہاتھوں، ٹانگوں سے پکڑ کر باہر پھینکوانے کے منظر، کہیں گالی گلوچ۔ اگر ایسے تمام ادارے اپنے ہر اجلاس میں خاموشی کو حرزِ جاں بنالیں تو ساری دُنیا اتحاد اور امن کا گہوارہ بن جائے۔ نہ کوئی تقریر ہو نہ تکرار، نہ کوئی قرارداد نہ بحث، اجلاس چار گھنٹے کا ہو تو بے شک آٹھ گھنٹے تک بیٹھے رہیں بلکہ سوتے رہیں۔ یوں بھاری الاؤنسز کے ساتھ اوور ٹائم بھی مل سکتا ہے۔ اس طرح خاموشی ہر سطح پر اتحاد اور امن کے ساتھ معاشی لحاظ سے بھی نعمت بن سکتی ہے۔
۔۔۔ ۔نئی تہذیب شور اور ہنگامے سے عبارت ہے۔ اب لڑکیاں برملا رشتے پسند یا ناپسند کرتی ہیں۔ اگلے وقتوں میں جب نئی تہذیب ابھی مسلّط نہیں ہوئی تھی، کیا حیاداری تھی۔ لڑکی کے بزرگ اور قاضی صاحب لڑکی کے پاس جاتے، اس سے دریافت کرتے، یہ رشتہ منظور ہے؟۔ پھر اس کی خاموشی کو نیم رضاہی نہیں پوری رضامندی سمجھ کر اس کا انگوٹھا لگوالیتے۔ یہ سب خاموشی کا فیض تھا جس سے ہمارا معاشرہ اب تقریباً محروم ہوچکا ہے۔
۔۔۔ ۔خاموشی خیر کی علامت ہے جبکہ شور، شر کا مظہر ہے۔ شورپسند لوگ شورش پسند ہوتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ فتنہ فساد کی سوجھتی ہے جبکہ خاموشی پسند کرنے والے فطرتاً امن پسند ہوتے ہیں۔ اس شوہر کی ازدواجی زندگی کبھی ناکام نہیں ہوسکتی جو مزاجاً خاموشی پسند ہو، چاہے اس کی بیوی کتنی ہی جھگڑالو کیوں نہ ہو، کیونکہ خیر کی قوت بالآخر شر کی قوت پر غالب ہی آتی ہے۔ اسی لئے تو غالبؔ نے کہا تھا:
ایک ’’خاموشی‘‘ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
ادب میں جو لوگ ڈھول تاشوں، اخباری کالموں، تصویروں،مشاعروں، ٹیلی ویژن اور ریڈیو پروگراموں کے پُرشور بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ آتے ہیں، داد و تحسین کی سطحی تالیاں سمیٹ کر جلد ہی مطلع ادب سے رخصت ہوجاتے ہیں مگر خاموشی سے کام کرنے والے آخری دم تک کام کرتے رہتے ہیں بلکہ آنے والی صدیوں میں بھی کاغذ پر چلتے ہوئے ان کے کلکِ گوہریں کی سرگوشی برابر سنائی دیتی رہتی ہے۔ گریرسن نے ہندوستان کی زبانوں پر عمر بھر کام کیا اور آخری دن تک کام کرتا رہا۔ جب اس کی ۸۰ویں سالگرہ کے موقعہ پر لوگ اسے مبارکباد دینے کے لئے اس کے گھر گئے تو دیکھا کہ وہ خاموشی سے میز کے قریب بیٹھا تھا۔ چاروں طرف کتابیں بکھری ہوئی تھیں اور وہ اپنے کام میں کھویا ہوا تھا۔ جب اسے مبارکباد دی گئی تو اس نے حیران ہو کر کہا:
’’ارے اسّی برس گزر گئے اور مجھے پتا ہی نہ چلا‘‘۔
***

نقاب

نقاب

حیدربھید جہاں کے جیسے خواب کے اندر خواب
ایک   نقاب    اگر    اُلٹیں   تو   آگے   اور  نقاب
 
 اگلے روز ایک شاپنگ سنٹر پر خریداری کرتے ہوئے میری دو واقف خواتین سے ملاقات ہوئی تو مجھے پہلی بار ایک حیرت انگیز حقیقت سے آشنائی ہوئی۔ ان میں سے ایک خاتون خاصی خوبصورت تھی اور ایک نہایت بدصورت لیکن برقع پہننے کا انداز اور آدھے نقاب کاکمال تھا کہ خوبصورت خاتون تو پہلے سے بڑھ کر خوبصورت لگ رہی تھی، بدصورت خاتون بھی حیرت انگیز طور پر خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ تب میں نے پہلی دفعہ نقاب کے بارے میں غور کیا تو مجھ پر منکشف ہوا کہ نقاب نہ صرف حسن کو مزید نکھارتا ہے بلکہ عیوب کوڈھانپ کر ان میں بھی ایک حسن پیدا کردیتا ہے۔ مزید غور کرنے پرمجھے انسانی ذہن اور خواتین کے نقاب کے ارتقا کی کہانیاں ایک دوسرے سے مربوط نظر آنے لگیں۔
۔۔۔ ۔شٹل کاک برقع اس دور کی بات ہے جب انسان خود کو اور کائناتی رموز کو جاننے کے لئے سرگرداں ہونے لگا تھا۔ پھر جب ریشمیں برقع پورے نقاب کے ساتھ آیا تو گویا انسان(ایک حد تک) اپنی ذات اور کائنات کی گتّھیاں جان چکا تھا اور انہیں سلجھانے میں مشغول تھا۔ ریشمیں برقع پورے نقاب سے آدھے نقاب تک آیا تو انسان بھی حیرت انگیز انکشافات اور ایجادات کے دور میں آگیا۔ جوں جوں خواتین کا نقاب ارتقا کے مزید مرحلے طے کرتا جائے گا انسانی ذہن بھی اپنی اور کائناتی دریافت کے عمل میں اسی رفتار سے آگے بڑھتا جائے گا۔
۔۔۔۔ ویسے دنیا میں ہر شخص نے نقاب اوڑھ رکھا ہے۔ تاجر، ادیب، ملا، پنڈت، افسر، ملازم، دوکاندار، خریدار، سیاستدان۔ کیا یہ سب لوگ بظاہرجیسے نظر آتے ہیں حقیقتاً ویسے ہیں؟ یہ سب لوگ محبت،خلوص، ایمان اور سچائی وغیرہ کے نقاب اوڑھ کر نفرت، ریاکاری اور جھوٹ کے کھیل کھیلتے ہیں لیکن ان کے نقابوں نے ان کے عیوب کو ڈھانپ رکھا ہے۔
۔۔۔ ۔انسانی چہرہ بجائے خود ایک نقاب ہے جس میں سے کبھی کبھی اس کے اندر کا حیوان جھانکتا ہوا نظر بھی آجاتا ہے۔ اندر کا فرشتہ تو اکثر چہرے پر ہی ملتا ہے۔ کون ہے جو کسی دوسرے انسان کو پوری طرح جاننے کا دعویٰ کرسکے۔ انسان دوسروں کے لئے تو نقاب میں ہے ہی۔ خود اپنے لئے بھی وہ نقاب میں ہے۔ کوئی انسان آج تک خود کوپوری طرح نہیں دیکھ سکا، نہ ہی تاحال کوئی ایسا آئینہ دریافت ہو سکا ہے جو انسان کے اندر کے سارے بھید اس پر کھول سکے۔ اسی لئے تو سلطان باہوؒ نے کہا ہے
:
دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہوُ
سطح سمندر کا پانی بھی دراصل ایک نقاب ہے جس نے اس کے اندر کی ایک پوری آباد دنیا کو چھپا رکھا ہے۔ پھر یہ دھرتی بھی ایک نقاب ہے جس کے اندر چھپے ہوئے پُر اسرار خزانے تمام تر معدنی اور آتش فشانی دریافتوں کے باوجود ابھی تک نقاب میں ہیں۔ اس سے بھی آگے دیکھیں تو یہ پوری کائنات ہی ایک نقاب ہے جس کے عقب میں خالقِ کائنات کا مسکراتا ہوا،اَن دیکھا حسن ہے۔ اس کائناتی نقاب سے جھانکتے ہوئے چاند،سورج، کہکشائیں اور کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں ستارے، اسی نقاب کے عقب میں موجود ازلی حسن کی ہلکی سی جھلک دکھاکر ہمیں بے تاب کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اگر ساری کائنات بنانے کے ساتھ ایسا نقاب نہ اوڑھا ہوتا تو اس کی تلاش اور جستجو کا وہ سفر پھر کہاں ہوتا جو بڑے بڑے سادھو اور صوفی ہزاروں برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ گویا نقاب ہمیں سکوت اور ٹھہراؤ کی حالت سے اٹھاکر متحرک کرتا ہے۔ تجسّس کی آگ ہمارے سینوں میں بھڑکاکر ہمیں سفر پر روانہ کرتا ہے اور پھر سفر بھی چوتھے کھونٹ کا۔ چنانچہ انسان کی چاند کی طرف اورپھر اس سے بھی آگے کی طر ف کا سفر ہو یا کسی عاشقِ صادق کا آدھے نقاب والے محبوب کے تعاقب میں اس کے گھر کا سفر ہو، سب اسی چوتھے کھونٹ کے سفر کی داستانیں ہیں۔
۔۔۔۔نقاب معلوم کے جہنم اور نامعلوم کی جنت کے درمیان عالمِ برزخ ہے۔ نقاب کی پُراسراریت ہمارے تجسّس کو بڑھاتی ہے۔ نقاب اوڑھنے والا خود ہی سب کو نہیں دیکھ رہا ہوتا، دوسرے بھی اس کی موجودگی کا لطیف احساس رکھتے ہیں لیکن موجودگی کے اس احساس کی لطافت اس اسرار کے ساتھ بندھی ہوتی ہے کہ وہ نقاب کے باعث دکھائی دے کر بھی دکھائی نہیں دے رہا ہوتا۔’’ہونے‘‘’’نہ ہونے‘‘ کی یہ لذّت صرف نقاب کی بدولت ممکن ہے۔ اگر ہر شے بے نقاب ہوتی تو کسی شے میں کوئی جاذبیت نہ رہتی۔ ہر شے معلوم، دیکھی بھالی، جانی پہچانی ہوتی تو ہم پر یکسانیت، بے زاری اور اُکتاہٹ طاری کردیتی۔ لیکن یہاں تو نقاب درنقاب سلسلے ہیں۔ کسی شے یا شخصیت کا ایک نقاب ہٹائیں تو اندرسے ایک اور جہانِ حیرت ایک اور نقاب سے جھانکتا نظر آئیگا۔ پھر اس نقاب کو ہٹائیں تو ایک اور نقاب اور ایک اور جہانِ حیرت و تجسّس! اسی لئے ادب میں معلوم کی دریافت ایک احمقانہ فعل ہے یا کم از کم سطحی عمل ہے جبکہ نامعلوم کی دریافت ہی اصل تخلیقی سچائی ہے۔
۔۔۔ ۔انسانی جسم بھی ایک نقاب ہے جسے روح نے اوڑھ رکھا ہے۔ روح جسم سے نکل کر فنا نہیں ہوتی بلکہ موت کا نقاب اوڑھ کر اس میں زندگی بن کے دھڑکنے لگتی ہے۔ زمانے کی ماہئیت پر سنجیدگی سے غور کریں تو ماضی سے مستقبل تک زمانہ نقاب اوڑھے نظر آتا ہے۔ مستقبل کے پورے مگر باریک نقاب میں سے ہرلحظہ جھانکتا ہوا’’حال‘‘ پلک جھپکتے ہی ماضی کے آدھے نقاب کی اوٹ میں چلاجاتا ہے اور ہم اس لمحے کو چھونے کی،پوری طرح دیکھنے کی خواہش دل میں ہی لئے رہ جاتے ہیں۔
۔۔۔ ۔ڈپلومیسی کا نقاب آج کل بہت عام ہے۔ عام زندگی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر شعبۂ حیات میں اس نقاب کو بے حد پسند کیا جارہا ہے۔ اس کے رواج سے پرتکلف اخلاقیات کا فروغ ہو رہا ہے۔ بعض سر پھرے اسے منافقت قرار دیتے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ نقصان سر پھروں کا ہی ہوتا ہے۔خوشامد اور چاپلوسی کا نقاب اوڑھ کر لوگ بڑے بگڑے کام بھی ٹھیک کرالیتے ہیں۔ یہ ایسا خوبصورت اور دلآویز نقاب ہے جو کسی بھی طرح کے بڑے سے بڑے اور اصول پرست رہنما کو بھی مغلوب کرلیتا ہے۔
۔۔۔۔ دبیز نقاب جب کسی معقول انسان کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ عاشقِ زار بن کر محلے کے شرفا کے لئے متعدد مسائل پیدا کردیتا ہے لیکن جب یہی نقاب کسی ادیب کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ بے سر و پا نظمیں یا مضمون نما خط قسم کی چیزیں لکھ کر اپنے آپ میں ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔
شاید نفسیاتی مسئلہ!
***

وِگ

وِگ

یہ  بال و پر  تو  چلو  آگئے  نئے  حیدرؔ

بلا سے پہلے سے وہ خال اور خد نہ رہے

   
جب سے میں نے ہوش سنبھالا تب سے ہی دیکھا کہ اباجی کے سرپر بال نہیں تھے۔ بچپن سے ہی میری شدید خواہش رہی کہ اباجی کے سر پر بال سجے ہوئے دیکھوں۔ اس کی دو ممکنہ صورتیں تھیںیا تو کوئی ایسی دوا مل جائے جس سے بال دوبارہ اُگ آئیں یا پھر وِگ سجالی جائے۔ تب وگ خریدنے کے وسائل میسّر نہیں تھے پھر بھی میں نے ایک بار اباجی سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو وہ مسکرا کر رہ گئے۔ اور بس!۔وسائل میسّر آنے سے پہلے اباجی فوت ہوگئے۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی یہ انوکھا سا واقعہ رونما ہوا کہ دنیائے فانی سے کوچ کرنے کے بعد اباجی میرے اندر آن بسے۔ دل میں، لہومیں، روم روم میں بس گئے یہاں تک کہ میرے سر پر بھی پوری طرح نمودار ہوگئے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ واقعی ہمارا باہر بھی ہمارے اندر کا ایک حصہ ہے۔ اباجی کی محبت نے جب میرے اندر اور باہر پر پوری طرح غلبہ کرکے مجھے تصوف کے مقام فنائیت تک پہنچادیا تب میں، میں نہ رہا۔ میں نے آئینہ دیکھا تو ایسے لگا جیسے بیس برس پہلے کے اباجی کو دیکھ رہا ہوں۔ سر سے پاؤں تک وہی صورت۔ پھر میں نے مقام فنا سے مقام بقا کا رُخ اختیار کرنے کا سوچا۔ دراصل اب ہمہ وقت اباجی سے ہی ملاقات ہوتی رہتی تھی اور اپنے آپ سے ملنے کی صورت ہی نہیں بن رہی تھی۔ تب اپنے آپ سے ملنے کی خواہش نے جوش دکھایا:
چلو اپنی بھی جانب اب چلیں ہم
یہ رستہ دیر سے سُونا پڑا ہے
۔۔۔۔سو میں نے ایک مناسب سی وگ خریدی۔ اپنے مخصوص(مگر گمشدہ) ہیراسٹائل کے مطابق اسے برش کرکے سر پر سجالیا۔ وگ کا سر پر سجانا تھا کہ میکدے سے میری جوانی خود ہی اٹھ کر میرے پاس آگئی۔ اپنی جانب کا ویران راستہ رونقوں سے بھرگیا۔ زندگی کا میلہ سا لگ گیا مجھے احساس ہوا کہ میں بیالیس برس کی عمر میں بلاوجہ باون برس کا بنا ہوا تھا۔ وگ کے بغیر میں اپنی عمر سے کہیں آگے نکل گیاتھا۔ وگ نے مجھے میری اصل عمر عطاکردی۔ وگ پہن کے پہلے پہل آئنہ دیکھا تو ایسے لگا کہ کسی ایسے اجنبی مہمان سے مل رہاہوں جس نے میرے گھر میں آکر میرا ہی لباس زیب تن کررکھا ہے لیکن’’خود کو پہچان‘‘ والا فرمان یاد آیا تو اپنی معرفت کے مرحلے طے ہونے لگے۔ اپنے آپ سے ملاقات ہونے لگی۔
۔۔۔۔کسی سیلاب یاطوفان کے آنے کے بعد جب کوئی ہنستا بستا شہر ویران اور بربادہوجاتا ہے تب باہمت اور جرأت مند لوگ اسے از سر نو آباد کرکے پہلے سے بھی خوبصورت بنادیتے ہیں جبکہ کاہل اور نکمّے لوگ عرصہ دراز تک خیمے بناکر گزارا کرتے ہیں۔ اسی طرح وقت کا بے رحم طوفان کئی انسانی سروں پر تباہی پھیلا کر ان کی اصل صورت کو بگاڑ دیتا ہے۔ وِگ نہ صرف اسی تباہی کا تدارک کرتی ہے بلکہ انسان کو اس کی اصلی صورت بھی عطا کردیتی ہے۔ وِگ پہننے والے لوگ وہ باہمت اور جرأت مند لوگ ہیں جو وقت کی پھیلائی ہوئی تباہی سے پھر نئی تعمیر کرتے ہیں جبکہ ٹوپی پہن کر گزارہ کرنے والے لوگ خیموں میں پناہ لینے والوں جیسے ہیں۔
۔۔۔ سیاہ رات اس دنیائے موجود کے سر پر ’’زُلف دراز‘‘والی وگ ہے۔ آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے اس زُلف پر گرے ہوئے شبنمی موتی ہیں، کہکشاں اس کی مانگ میں بھری ہوئی افشاں ہے اور چاند ایک خوبصورت سنہری کلپ۔ یہ دنیائے موجود،رات بھر کسی محبوبۂ دلنواز کی طرح اپنی زلفوں کی مہک بکھیرتی ہے لیکن دن ہوتے ہی سورج کی تپش سے گھبراکر اس وگ کو اُتار کر رکھ دیتی ہے۔ وگ میں یہ سہولت ہے کہ آپ جب چاہیں وگ پہن کر اپنی اصل صورت دیکھ لیں اور جب چاہیں وگ کو اتار کر قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ کرلیں۔
۔۔۔ ۔ہرے بھرے کھیت، باغات اور جنگلات بہار کے موسم میں خوبصورت وگیں پہن کر اپنی اصل صورت دکھاتے ہیں لیکن خزاں کسی حاسد کی طرح اُن وگوں پر طنز کرتے ہوئے آتی ہے اور اپنے ہاتھوں سے ان سب کی وگیں اتارتی اور اُدھیڑتی چلی جاتی ہے۔ پھر ایک شیطانی قہقہہ لگا کر کہتی ہے: یہ باغات، جنگلات اور کھیت سب جھوٹ تھے۔ ان سب نے بھیس بدل کر انسانوں کو دھوکہ دیاتھا انہیں بہار کا غلام بنانے کی سازش کی تھی۔ اب اُن کا اصلی روپ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ تمام انسان اُن کا اصلی روپ دیکھ لیں اور باربار جان لیں کہ یہ بہار ایک دھوکہ ہے۔ زندگی کی حقیقت فنا ہے۔ خزاں اسی سچائی کو پھیلانے کے لئے قدرت کی طرف سے مقرر کی گئی ہے۔ وقتی طور پر خزاں کی نحوست اپنا اثر دکھاتی ہے۔ اسی دوران بہار پھر اپنے کھوئے ہوئے وقت کو واپس لانے کے لئے اندر ہی اند کام کرتی رہتی ہے۔ چنانچہ جیسے ہی خزاں کی نحوست زائل ہونے لگتی ہے بہار پھر سارے کھیتوں، باغات اور جنگلات کے سروں پر ہریالی کی نئی وگیں سجادیتی ہے۔ پھولوں کا مسکرانا، پرندوں کا چہچہانا، تتلیوں کا آنا، بھنوروں کا منڈلانا۔ زندگی کا میلہ پھر سے لگ جاتا ہے۔
خزاں کے ہمنوا بعض دل جلے بھی وگ پہننے کو بھیس بدلنے یا بہروپ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن وگ پر بہروپ کا الزام بہتان ہے۔ یہ تو ایک ایسی سیدھی سادی سچائی ہے جو انسان کو اس کے اصل روپ میں پیش کرتی ہے۔ کوئی اس سچائی کو مانے نہ مانے یہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس کے برعکس بہروپ تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر کے شیطان کو مہارت کے ساتھ چھپا کر باہر فرشتہ بناپھرے۔ مایالگی ہوئی پگڑی کا اکڑا ہوا طرّہ، تکبر کی ماری اکڑی ہوئی گردن، ریاکاری، کی لمبی داڑھی اور نفیس جبّہ۔ یہ جبّہ و دستار بہروپ ہے۔ ایسے بہروپیوں کا یہ سازوسامان اُتارلیا جائے تو نیچے سے ن۔م۔راشد کا لا236انسان برآمد ہوگا۔ جبّہ و دستار کا بہروپ تو خلقِ خدا کو گمراہ کرنے اورغلام بنانے کا ڈھونگ ہے جبکہ اس کے برعکس وِگ اس فکری آزادی کا اعلامیہ ہے جو غلامی سے نجات دلائے۔
۔۔۔۔وہ لیڈر بہروپیے ہیں جو عوام کی فلاح کے دعوے کرتے ہیں اور عملاً عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی بہروپیے ہیں جو مغربی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لئے ایسے ایسے من گھڑت اور جھوٹے بیانات دیتے ہیں کہ گوئبلز کی روح بھی شرما جائے اور اپنے تمام جھوٹے بیانات کے باوجود سچائی کے علمبردار ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ ادب میں بھی ایسے کئی بہروپیے پائے جاتے ہیں۔ کسی مالدار ادیب سے دو لاکھ روپے کھا کر اسے ۲۵ہزار روپے کا انعام دلانے والے، مناسب حق الخدمت کے طور پر کسی لولے لنگڑے افسانے کو دور حاضر کا ممتاز ترین افسانہ قرار دینے والے، کمپیوٹر کے عہد کی مناسبت سے کمپیوٹر کی قیمت پر مدح سرائی کرنے والے، ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر غریب مزدوروں اور کسانوں کی حمایت میں ادب لکھنے والے، اصل بہروپیے تو اس قماش کے لوگ ہیں جبکہ وِگ کیرلین پراسیس کے بیان کردہ گم شدہ حصے کی دریافت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ وِگ کا جہان بہروپیوں سے یکسر مختلف ہے۔ وِگ پر بہروپ کاالزام عائد کرنے والے حقیقتاً خود بہروپیے ہیں جو اپنے بہروپ کا بھرم قائم رکھنے کے لئے وِگ کی اہانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وِگ پہننا اپنے گم شدہ حصے کی بازیافت کا عمل ہے جس کے بغیر اپنی پہچان اور اپنے عرفان کے مرحلے طے نہیں ہوسکتے۔
۔۔۔۔ یہاں تک لکھنے کے بعد میں نے ایک بار پھر آئینے میں خود کو دیکھا تو مجھے ایسے لگا کہ اباجی میرے سامنے کھڑے ہیں۔ اُن کے سر پر گھنے اور خوبصورت بال سجے ہوئے ہیں جنہیں سلیقے سے سیٹ کیاگیا ہے۔ اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ میری بچپن کی وہ آرزو پوری ہوگئی ہے کہ کبھی اباجی کے سر پر بھی بال سجے ہوئے دیکھ سکوں۔ تب ہی مجھ پر منکشف ہوا کہ اباجی میرے اندر کی طرح باہر بھی اسی طرح موجود ہیں جیسے وِگ سے پہلے موجود تھے، اس فرق کے ساتھ کہ میں ان کی عمر کا جو زمانہ نہیں دیکھ سکا تھا اب مجھے وہ زمانہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ میں آئینے میں اباجی کو دیکھ کر مسکرایا تو وہ بھی مسکرادیئے۔
انکشافِ ذات کا یہ نظارہ وِگ سے سر افراز ہوئے بغیر کہاں ممکن تھا
!
***

فاصلے، قربتیں

فاصلے، قربتیں

جب سرکار کی جانب سے منظوری ہوتی ہے
فاصلہ   کتنا  بھی  ہو عین حضوری ہوتی ہے

        مجھے سرسبز و شاداب پہاڑ ہمیشہ اچھے لگتے رہے ہیں۔ اُن کی بلند قامتی، شادابی اور ہریالی سے مجھے انوکھی سی روحانی آسودگی کا احساس ہوتا رہااور میں من ہی من میں ان کی عظمت کا معترف رہا۔ لیکن جب ایک بار مجھے ایسے ہی ایک پہاڑ کی چوٹی پر جانے کا شوق چرایا اور میں اس سفر پر روانہ ہوا تو میرے پہلے تصوّر کو شدید ٹھیس پہنچی۔ میں نے دیکھا کہ دور سے اتنا عظیم دکھائی دینے والا پہاڑ ایسے خوفناک ٹیڑھے میڑھے رستوں اور ہولناک کھائیوں سے بھرا ہواتھا جو سیدھا موت کے منہ میں لے جانے والی تھیں۔ اس کا دامن خونخوار جانوروں سے بھرا ہواتھا۔ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر میں نے نیچے دیکھا تو اچھے بھلے انسان، بڑی بڑی عمارتیں، گاڑیاں وغیرہ مجھے بہت ہی معمولی اور چھوٹے چھوٹے کھلونوں کی طرح دکھائی دیئے۔ بے معنی اور حقیر۔! تب مجھے فاصلے کا کمال معلوم ہوا جس نے پہاڑ کے اندر کے ولن کو چھپاکر اسے ہیرو کے روپ میں پیش کررکھاتھا۔ تب ہی مجھے اندازہ ہوا کہ بڑے بڑے عظیم لوگ، پہاڑ جیسے عظیم لوگ۔ اکثر محض اس لئے عظیم لگتے ہیں کیونکہ ہم انہیں فاصلے سے دیکھتے ہیں۔ اپنی نام نہاد عظمت کی بلندی سے انہیں اچھے بھلے انسان اور بڑی بڑی چیزیں بھی حقیر سی دکھائی دیتی ہیں۔ فاصلے اور بلندی کے اس تماشے کی حقیقت کو سمجھنے کی بجائے ایسے’’عظیم لوگ‘‘ سچ مچ اپنی عظمت کے خبط میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ انہیں قریب سے دیکھ لیتے ہیں اُن پر اُن کی عظمت سے زیادہ اُن کی شخصیت کے مخفی جوہر کھل جاتے ہیں اس لئے وہ ان کی عظمت کے منکر ہوجاتے ہیں۔ ایسے منکرین کے ساتھ پھر کیا سلوک کیاجاتا ہے یہ ایک الگ داستان ہے بلکہ داستانوں کا ایک سلسلہ ہے جس سے تاریخِ انسانیت بھری پڑی ہے۔
طویل فاصلے سے سورج جیسے چمکتے ہوئے لوگ، اپنے اندر سورج سے بھی زیادہ بڑا جہنم آباد کئے بیٹھے ہوتے ہیں یہ الگ بات کہ فاصلے پر بٹھائے ہوئے لوگوں کے لئے جنت کی بشارتیں نشر کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی ایسی بشارتوں پر شک کرنے لگے تو اس کی زندگی کو ہی جہنم بنادیاجاتا ہے۔ فاصلے اور قربت کی کرشمہ سازی کے انکشاف کے بعد مجھے فاصلے اور قربت کے کئی رنگ اور کئی روپ دکھائی دینے لگے۔
۔۔۔۔قربت کی انتہا یکتائی ہے جبکہ فاصلے کی ابتدا سے فرقِ من و تو پیدا ہوتا ہے۔ قربت محبت اور عقیدت کا ثمر ہے اس لئے دل کے زیرِ اثر ہے۔ عقل و شعور سے اس کا معاملہ بس واجبی سا ہوتا ہے۔ فرقِ من و تو، شعور و آگہی کا پہلا سبق ہے( باقی کے سارے سبق اسی فرق کی تشریح اور تفسیر ہیں) اس لئے فاصلے کو عقل و شعور کے زیرِ اثر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قربت آتشِ نمرود یاآتشِ محبت میں بے خطر کود پڑنے کا نام ہے جبکہ فاصلہ ہمیشہ محو تماشائے لبِ بام رہتا ہے بلکہ بعض اوقات لبِ بام سے بھی پرے کھڑا ہوتا ہے۔اگر فاصلہ بھی اس آتش میں کود پڑے تو پھر فرقِ من و تو ختم ہو جائے گا، فاصلہ ختم ہوجائے گا بس قربت ہوگی، یکتائی کا عالم ہوگا۔ اسے نیستی یا فنا بھی کہہ سکتے ہیں۔
۔۔۔ ۔تخلیق کے امکانات کو قربت یکجا کرتی ہے اور فاصلہ تخلیقات کے انبار لگاتا چلاجاتا ہے۔ موجودہ کائنات کی تخلیق کا جو سائینسی نظریہ مقبول ہے۔ اس کے مطابق پہلے سارا کائناتی مادہ یک جاتھا گویا قربت کی انتہا تھی۔ یہ مادہ ایک بہت بڑے گولے کی صورت میں تھا جس کے اندر تخلیق کے سارے امکانات موجود تھے۔ بڑے دھماکے(BIG BANG) کے نتیجہ میں جب یہ گولا پھٹا تو فاصلہ پیدا ہونے لگا۔ فرقِ من و تو پیدا ہونے لگا۔ یہ کہکشاں ہے، یہ سورج ہے، یہ سیارے ہیں، انہیں سیاروں میں یہ زمین ہے اور یہ ہماری زمین کا چاند ہے۔ قربت نے ان ساری رونقوں کو اپنے اندر سمیٹ رکھا تھا فاصلے نے انہیں محبت کے زخموں کی نمائش کی طرح باہر لاکر سجادیا۔ فاصلہ اور قربت ایک دوسرے کے لئے اسی طرح لازم و ملزوم ہیں جس طرح ایٹم کا ہر اینٹی پارٹیکل اور پارٹیکل۔ رات اور دِن۔ اہر من اور یزداں۔ اور میری بیوی اور میں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔( میری بیوی اور میرے معاملے میں آپ لازم و ملزوم کی بجائے’’لازم و ملزم‘‘ سمجھیں۔ الزامات کی نوعیت وہی ہے جو یورپ میں ہر شریف شوہر کو اپنی بیوی سے سننا پڑتے ہیں)
۔۔۔ ۔آنکھیں ایک خاص حد تک کی قربت اور ایک خاص حد تک کے فاصلے سے ہی دیکھ سکتی ہیں۔ قدِ آدم آئینے سے بالکل قریب ہو کر کوئی اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھ سکتا۔ خود کو دیکھنے کے لئے بھی تھوڑا سا فاصلہ ضروری ہے۔ تمام فاصلوں کو مٹاتے ہوئے دو جوان دلوں کو شاید اسی لئے اپنے ارد گرد کچھ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ قربت کی انتہا تک پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ ’’یہ رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ کا ایمان افروز منظر ہوتا ہے۔ یارلوگ مشرقی ممالک میں تو اُسی وقت کیدو کا روپ دھارکر اصلاح معاشرہ کا فریضہ اداکرنے لگ جاتے ہیں جبکہ مغربی ممالک میں انہیں ناقابلِ اصلاح سمجھ کر ’’گونگے گواہ‘‘ کی طرح آگے بڑھ جاتے ہیں۔
۔۔۔ ۔فاصلے کے معاملے میں جیومیٹری کے کئی زاویے بھی آڑے آتے ہیں۔ میدانی یا صحرائی علاقے میں آپ ایک خاص حد تک صاف اور پھر مدھم مدھم دیکھ سکتے ہیں۔ بڑے شہروں میں بیس پچیس منزلہ عمارتوں سے دیکھیں تو ارد گرد کا منظر کسی اور ہی روپ میں سامنے آتا ہے ۔پہاڑی علاقے میں بل کھاتے ہوئے، مڑتے ہوئے اونچے نیچے رستے تو قدم قدم پر چونکاتے ہیں۔ ۴۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا آدمی جس منظر کو صاف طور پر دیکھ رہاہوتا ہے۔ ۲۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا آدمی محض قریبی موڑ آڑے آنے کی وجہ سے اس منظر کو نہیں دیکھ سکتا۔ کبھی کبھی مجھے ایسے لگتاہے جیسے سارے نظریات ایسے ہی بل کھاتے ہوئے رستوں کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ ۲۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا جس منظر کا انکار کررہا ہے بظاہر اس کا انکار درست ہے اور ۴۰فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہوا جس منظر کی موجودگی پراصرار کررہا ہے اس کا اصرار بھی سچ ہے۔ مسئلہ تو صرف اتنا ہے کہ دونوں فریق یہ نہیں کرتے کہ اپنی اپنی جگہ پر جم کردوسرے کو جھوٹا قرار دینے کی بجائے خود دوسرے کی جگہ پر جاکر بھی اُس منظر پر ایک نظر ڈال کر دیکھ لیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو نظریاتی سطح پر صرف اپنے گروہ کو سچا اور دوسرے گروہوں کو جھوٹا قرار دینے کا منفی رویہ ختم ہوجائے۔
۔۔۔۔قربت کا ایک رنگ مرد اور عورت کے تعلق سے عبارت ہے۔ اس قربت کے مختلف مراحل ہیں۔ آخری مرحلے کے اختتام پر فاصلہ وجود میں آجاتا ہے:
بے دم ہوں میں اِدھر تو اُدھر وہ نڈھال ہے
۔۔۔۔گویا قربت کی انتہا سے فاصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح فاصلے کی انتہا قربت کو جنم دیتی ہے۔ یہ کوئی فلسفہ نہیں حقیقت ہے۔ اپنی زمین کا نقشہ دیکھ لیں جو علاقے ایک دوسرے کی مخالف سمت، زمین کی آخری انتہاؤں پر واقع ہیں اس حقیقی گلوب میں سب سے زیادہ قریب ہیں۔ بیوی جسمانی طور پر قریب ہوتی ہے لیکن اس کی قربت میں ایک فاصلے کا احساس رہتا ہے۔ جبکہ محبوبہ کتنے ہی جغرافیائی فاصلے پر کیوں نہ ہو اس کے فاصلے میں بھی قربت کی مہک تازہ رہتی ہے۔ فاصلے میں قربت اور قربت میں فاصلہ۔ فاصلے کی انتہا میں قربت اور قربت کی انتہا میں فاصلہ۔
کہیں قربت اور فاصلہ ایک ہی سکّے کے دو رُخ تو نہیں؟

***

بڑھاپے کی حمایت میں

بڑھاپے کی حمایت میں

یہ ڈھلتی عمر بھی شعلے مرے بجھا نہ سکی

لہو   میں   اپنے   ابھی   اشتعال   باقی   ہے

 
پچھلے دنوں مجھ سے بمشکل پانچ سات سال کم عمر کے ایک نوجوان نے مجھے ایک محفل میں انکل کہہ کر مخاطب کیا تو فوری طور پر مجھے اس پر شدید تاؤ آیا۔ کیونکہ عمروں میں پانچ سات برس کا فرق چچا بھتیجے کے مقابلے میں بڑے اور چھوٹے بھائی کا فرق کہلا سکتا ہے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ مجھے مخاطب کرنے والے نے مجھے جس نام سے بھی مخاطب کیا ہے اس میں اس کا خلوص شامل ہے اور مجھے اس کے خلوص کاا حترام کرنا چاہئے۔ اس نوجوان کے خلوص کے احترام کے باوجود یہ وسوسہ میرے ذہن میں گھر کرنے لگا کہ شاید میری جوانی مجھ سے دامن چھڑاتی جارہی ہے اور بڑھاپے نے دبے پاؤں میری طرف آنا شروع کردیا ہے۔میں اسی وسوسے میں گھرا ہوا تھا جب گیان کا ایک حیرت فزا لمحہ مجھ پر اُترا۔۔میں نے زندگی کے تینوں زمانوں۔بچپن،جوانی اور بڑھاپے کو اس گیان کی روشنی میں دیکھا تو بڑھاپا مجھے سب سے اعلیٰ، ارفع اور برتر نظر آنے لگا۔
بچپن انسان کے گزرے ہوئے ماضی بعید کی طرح اپنے خاندان سے چمٹے رہنے میں عافیت محسوس کرنے کاعہد ہے۔ ماضی کا ابتدائی انسان بھی اسی طرح زمین سے پیوست اور اپنے معاشرے سے چمٹا ہوتا تھا۔ جوانی حال مست رہنے کا عہد ہے جس طرح ہم اپنے حال میں رہ کر اپنے حال سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ایسے ہی جوانی میں بھی اپنے آپ سے بے خبری کا عجیب عالم ہوتا ہے۔ لیکن بڑھاپا مستقبل کی طرح یقین اور بے یقینی کی دھند میں لپٹاہوا عالم برزخ ہے۔ یہاں سے آگے انسان کے ماورائے زمان و مکان ہونے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ بڑھاپے کے عالمِ برزخ میں انسان ماورائے مکان ہونے کے لئے اپنے سارے مکان کو چھوڑ کر ایک چھوٹے سے کمرے میں سمٹ آتا ہے( یا سمیٹ دیاجاتا ہے)۔ پھر یہاں آکر اس کے نزدیک سارا زمانہ ہی بے وقعت ہوجاتا ہے کیونکہ بوڑھے آدمی کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں ہوتی کہ ناشتہ دوپہر کو دیاگیا اور دوپہر کا کھانا شام کو ملا اور شام کا کھانا ملا ہی نہیں۔ بڑھاپا اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ زمان و مکان کی رہی سہی برائے نام حدود کو توڑ کر ایک طرف تو پوری طرح ماورائے زمان و مکان ہوجاتا ہے اور دوسری طرف زمان کے رگ و پے میں سرایت کرکے مکان پر قابض رہتا ہے۔ اس کی اولاد، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں، ماضی، حال اور مستقبل کے روپ دھارے اس کے نہ ہونے کے باوجود اس کے ہونے کی گواہی بنے رہتے ہیں۔
۔۔ ۔۔بچپن میں ہم جوانوں کو دیکھ کر جوان ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن جوان ہوتے ہی بچپن کو یاد کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس جوانی میں ہم آنے والے بڑھاپے کے تصوّر سے ہی خوف کھاتے ہیں۔ لیکن بڑھاپا آتے ہی ہم پر فکر و دانش کے ایسے انوار برستے ہیں کہ نہ صرف بڑھاپے سے سارا خوف دور ہوجاتا ہے بلکہ ہماری زندگی میں ہی بڑھاپا ہمیں بچپن اور جوانی ہمارے بیٹوں اور پوتوں کی صورت میں دکھادیتا ہے۔ بعض لوگ اپنے بڑھاپے میں اپنی جوانی کو اپنے بیٹے کے روپ میں دیکھنے کی بجائے خود جوان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نیک مقصد میں کامیابی کے لئے مخصوص قسم کے حکیموں اور ڈاکٹروں کی چوکھٹوں پر حاضری دیتے ہیں۔ ایسے بوڑھوں کے بڑھاپے کے بارے میں غالبؔ نے کہا تھا:
مضمحل ہوگئے قویٰ غالبؔ
شرم  تم  کو مگر  نہیں  آتی
۔۔ ۔۔بچپن معصومیت سے عبارت ہے۔ جوانی حیرت و تجسس سے، جبکہ بڑھاپا فکر و دانش کے انوار کے ساتھ معصومیت اور حیرت و تجسّس کو بھی اپنے جلو میں لیے ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال لیجئے کہ مقامِ نبوّت سے سرفراز کئے جانے کے باوجود کس معصومیت کے ساتھ اللہ میاں سے بالمشافہ ملاقات کے متمنّی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ باربار سمجھاتے رہے اور فرماتے رہے ’’لن ترانی‘‘۔ لیکن یہی ارشاد ان کے تجسّس کو بڑھاتا ہے اور پھر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔پھر معصومیت اور حیرت و تجسّس کایہ امتزاج اُن کی فکر و دانش میں ایک انوکھی روحانی لذت بھردیتاہے۔ بڑھاپے اور فکر و دانش کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اکثر انبیاء علیہم السلام کو پیغمبری چالیس سال کی عمر میں عطا ہوئی۔ فی زمانہ متعدد ممالک کے constitutions میں سربراہِ مملکت کے لئے عمر کی کم از کم حد چالیس سال رکھی گئی ہے۔۔۔۔جبکہ چالیسواں سال بڑھاپے کا نقطہ ءِ آغاز ہے۔
۔۔ ۔۔بڑھاپا بزرگی اور متانت عطا کرنے کے ساتھ زندگی کے تجربات کا نچوڑ نکال کر ایک رہنما کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ بڑھاپے میں گرگِ ظالم بھی پرہیزگار بن جاتا ہے اور یہ پرہیزگاری اسے قویٰ کے اضمحلال اور زندگی کے تجربات کے نچوڑ کے بعد نصیب ہوتی ہے۔(آفرین ہے ان بزرگوں پر جو ستر سال کی عمر کے بعد بھی جوان لڑکیوں سے شادی کرنے کی جرأت رکھتے ہیں اور یوں سرِ عام گرگ ظالم کی پرہیزگاری کو بھی شرمسار کردیتے ہیں۔ خواہ ایسے جرأت مندانہ اقدام کے نتیجہ میں جان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑیں۔)
۔۔۔ ۔بچپن ایسا زمانہ ہے جس میں غیر محسوس طریقے سے بخارات اٹھتے رہتے ہیں۔جوانی میں یہ بخارات گہرے بادلوں کا روپ دھارلیتے ہیں۔ ایسے بادل جن میں گرج بھی ہوتی ہے اور چمک بھی۔ پھر یہ موسلادھار بارش بن جاتے ہیں۔ بڑھاپا بارش کے بعد قوس قزح کا منظرپیش کرتا ہے۔ زندگی کے تجربوں کی دھوپ سے ہفت رنگ عکس اُبھرتا ہے اور ایک حسین منظر بن جاتا ہے۔ گردو غبار دُھل جاتا ہے۔ چاروں طرف تازگی اور ہریالی کا سماں ہوتا ہے۔ ہلکی ہلکی اور ٹھنڈی میٹھی ہوا انسان کو وہ آرام و سکون بخشتی ہے جو بخارات اٹھنے کے عمل یا موسلادھار بارش کے دوران ہرگز نصیب نہیں ہوسکتا۔
۔۔۔ ۔انسانی بڑھاپے میں مر د اور عورت کی تفریق فطری طور پر قائم رہتی ہے ۔ بڑھاپے کے باعث بوڑھی عورت کا سر ہمیشہ اثباتی انداز میں ہلنے لگتا ہے اور بوڑھے مرد کو اپنی زلیخا سے یہ پوچھنے کی نوبت ہی نہیں آتی کہ اس کا سر کیوں ہل رہا ہے کیونکہ جواباً اس کا اپنا سر منفی انداز میں ہلنا شروع ہوچکاہوتا ہے۔
۔۔۔ ۔انسان بچپن میں ضدی ہوتا ہے اور جوانی میں باغی۔ لیکن بڑھاپے میں ضد اور بغاوت دونوں سے دامن چھڑا کر خود سپردگی اور راضی بہ رضا کے صوفیانہ مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔ اولاد جتنی گستاخ ، بے ادب اور بے پرواہ ہوگی انسان اس صوفیانہ مقام میں اتنا ہی ترقی کرتا جائے گا اور آخرکار اس مقام لاہوت تک جاپہنچے گا جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر وہ اپنی اولاد کو بھی خودسے متعلق ہرجھنجھٹ سے آزاد کردیتا ہے اور خود بھی آسودگی کی انتہاؤں کو چھولیتا ہے۔
۔۔۔ ۔مغرب میں چونکہ کمپیوٹرازم فروغ پارہا ہے اس لئے انہوں نے مقام لاہوت تک جلدی پہنچنے کے لئے ’’بوڑھوں کے لئے خودکشی کے آسان طریقے‘‘ اور ’’....آرام دہ طریقے‘‘ قسم کی کتابیں چھاپ کر بوڑھوں کے لئے بہت سی سہولتیں پیدا کردی ہیں۔
۔۔۔ ۔بڑھاپے کی ان فضیلتوں اور فیوض کے منکشف ہونے کے بعد میں نے جب اپنی عمر پر دوبارہ غور کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں تو ایک برتر مقام پر فائز ہونے والا ہوں۔ اس احساس کے ساتھ جب میں نے سوچا کہ چالیسویں برس تک پہنچنے کے لئے ابھی سات برس مزید انتظار کرنا ہے تو مجھے یہ سات برس اب پہاڑ کی طرح محسوس ہونے لگے ہیں۔

***

اطاعت گزاری

اطاعت گزاری

آخر لکیر  اپنے فقیروں   کو کھاگئی

بس اک فقیر بچ گیا ہٹ کر لکیر سے


  میرے ایک جوشیلے لیکن کم فہم دوست کا خیال ہے کہ اطاعت کا مادہ افراد اور قوموں کو فکری لحاظ سے بانجھ اور اپاہج بنا دیتا ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ غلامی کی قدیم روایت نے آج کے مہذب دور میں اطاعت گزاری کی مہذّب صورت اختیار کرلی ہے۔ اطاعت گزاری کو ایک اعلیٰ خوبی کے طور پر پیش کرکے افراد اور قوموں کو اس کے جال میں پھنسا کر غلام بنایا جاتا ہے۔ میں نے اس وقت تو دوست کی بات میں بڑا وزن محسوس کیا لیکن بعد میں جب غور کیا تو مجھ پر لمحہ بہ لمحہ اطاعت گزاری کی برکات منکشف ہوتی گئیں۔
عام حالات میں اطاعت گزاری کا مادہ ہزار نعمت کے برابر ہے جبکہ تنگ دستی کی حالت میں تولاکھ نعمت سے بھی بڑھ کر ہے۔ سچے اطاعت گزار اپنے آقایا ممدوح کی بات کبھی رد نہیں کرتے خواہ ظاہراً وہ بات کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو۔ کیونکہ وہ ظاہر بین نہیں بلکہ باطن بین ہوتے ہیں۔ اپنے اندر کی تیز فراست کے باعث انہیں یہ بھید معلوم ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ کسی سورج یا چاند کے نہیں، اپنے آقا کے اطاعت گزار ہیں۔
۔۔۔۔اطاعت گزاری، فرماں برداری اور وفا شعاری ایک ہی حقیقت کے مختلف چہرے ہیں ۔ اطاعت کا مادہ انسانی نفس کو سنگسار کرکے اس کی روح اور ذہن کو ہر طرح سے سبکسار کردیتا ہے، گویا اطاعت سے مراحلِ تصوّف کا آغاز ہوتا ہے اور کمال اطاعت تک وہ کامل صوفی بن جاتا ہے۔ دنیا کی لعنت ملامت یا اپنے ضمیر کی طعنہ زنی اسے اطاعت سے نہیں روک سکتی۔ کوئی عاشق اس وقت تک سچا اور کامیاب عاشق نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی وفا کے جوہر کو محبوب کی کامل اطاعت کے مقام تک نہ پہنچا دے۔ اسی لئے سچا عاشق اطاعت کی ایک ہی جست سے عشق کے سارے مرحلے طے کرکے فارغ ہوجاتا ہے۔
۔۔۔ ۔تجریدی تصویر کی طرح اطاعت گزاری بھی تہ در تہ نتائج(معانی) کی حامل ہے۔ آپ نے بڑے افسر کی اطاعت کی تو اس کے منظورِ نظر بن گئے۔ بڑے افسر کے منظورِ نظر بنتے ہی ماتحت عملہ کے اطاعت گزاروں کی ایک فوج آپ کے زیرِ نگیں آگئی۔ گویا افسروں کی اطاعت کرنے والوں کو بھی ایک افسری نصیب ہوجاتی ہے۔ آمروں کی اطاعت کرنے والوں کو اسی طرح ایک قسم کی آمریت مل جاتی ہے۔ یہ سلسلہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تک مسلسل جاری و ساری رہتا ہے۔ اطاعت گزاری ایک طرف حاکمِ اعلیٰ کے دل میں اطاعت گزار کے لئے محبت اور ہمدردی کے ساتھ نرم گوشہ پیدا کرتی ہے تو دوسری طرف اس اطاعت گزار کی اطاعت پر کمربستہ ہوجانے والے ماتحتوں کے دل میں بھی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ یوں اطاعت گزاری کے نتیجے میں دنیا امن اور محبت کا گہوارہ بن جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ تمام جماعتیں جو دُنیا کو امن اور محبت کا گہوارہ بنانے پر تُلی ہوئی ہیں، سب سے زیادہ زور اپنی تنظیم کی اطاعت پر ہی دیتی ہیں۔ سچے اور کامل اطاعت گزار ایسی جماعتوں کے لئے روح کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی فرد یا چھوٹا سا گروہ ایسی کسی جماعت سے انحراف کرنے لگتا ہے تو جماعت کے سب چھوٹے بڑے اسے کچا چباڈالنے پر تُل جاتے ہیں اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک اسے تہ تیغ نہیں کردیتے یا پھر سے اطاعت پر مجبور نہیں کردیتے۔ ایسے نازک موقع پر اخلاقیات کے سارے اصول بالائے طاق بھی رکھ دیئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں، اغماض و درگزر کا تو خیر کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ انحراف کرنے والوں کا مسئلہ پوری جماعت کی بقاء کا مسئلہ ہوتا ہے۔ منحرف ہونے والوں کا محاسبہ اور کردار کشی نہ کی جائے تو باقی اطاعت گزاروں کو اطاعت کُشی کے عمل سے کون روک سکتا ہے!
۔۔۔ ۔ہمارے معاشرے میں گھریلو ناچاقیوں کے باعث کئی گھروں میں طلاقیں ہوجاتی ہیں اور کئی گھر مستقل طور پر میدانِ کارزار بنے رہتے ہیں۔ ایسے گھر دراصل اطاعت کی نعمت سے محرومی کے باعث جہنم کا نقشہ بنتے ہیں۔ ساس، بہو میں سے کوئی ایک اور میاں بیوی میں سے اگر دونوں ہی اطاعت گزاری اختیار کرلیں یعنی اپنی آنکھیں ،کان اور ہونٹ پوری طرح مقفّل کرلیں تو نہ صرف ازدواجی زندگی خوشگوار اور مثالی ہوجائے گی بلکہ سارا گھر جنت کا نمونہ بن جائے گا۔
۔۔۔ ۔کامل اطاعت کے وصف سے محروم لوگوں کو بھیڑوں، بکریوں کے گلّوں سے سبق سیکھنا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ اشرف المخلوقات کا لقب تو بھیڑ بکریوں کو ملنا چاہئے جن کے ہاں سر تسلیم خم کرنے بلکہ قلم کرانے کا وصف پیدائشی ہوتا ہے۔
۔۔۔۔ سچے اطاعت گزار کاکمال یہ ہے کہ جو سانحہ اس کے اپنے گروہ کے ساتھ گزرے اسے تو وہ خدا کی طرف سے آزمائش اور امتحان قرار دیتا ہے لیکن اگر ویسا ہی سانحہ بلکہ اس سے بھی کم تر سانحہ کسی دوسرے گروہ کو پیش آئے تو پورے ایمانی جوش و خروش کے ساتھ اسے عذابِ الہٰی سے تعبیر کرتا ہے۔ کیسا صحیح رویّہ ہے!
ایں سعادت بزور بازو است
۔۔۔ ۔اچھا اطاعت گزار اول تو اپنے کھونٹے سے بندھے رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے تاہم اگر گھومنا پھرنا چاہے تو شاہی فرمان کے مطابق تین کھونٹ کے علاقوں تک ہی سفر کرتا ہے، چوتھے کھونٹ کی طرف کبھی نہیں جاتا۔ نتیجۃً آگہی کی ان ساری اذیتوں اور عذابوں سے محفوظ رہتا ہے جو ہر اُس شخص کا مقدر ہوتے ہیں جو چوتھی کھونٹ کی طرف نکل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ادب میں بھی اطاعت گزاری کے باقاعدہ سلسلے جاری ہیں۔ نظریاتی اطاعت گزاروں نے اپنے اپنے کیمپوں کو سجارکھا ہے۔ ادبی گدی نشینوں کی ساری توقیر اطاعت گزاروں کے دم قدم سے ہے، جبکہ اطاعت گزاروں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ان کے لئے مراعات کا دروازہ ’’کھُل جا سم سم‘‘ کہے بغیر ہی کھل جاتا ہے۔ یوں اطاعت گزاری کے وصف کے باعث انہیں چوتھی کھونٹ کا سفر کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور اطاعت گزار ادیب ادب میں چوتھی کھونٹ کے سفر کی ساری صعوبتوں سے محفوظ ومامون رہتے ہیں۔ سچ ہے جنہیں اللہ رکھے انہیں کون چکھے!
۔۔۔ ۔اطاعت گزاری کا جوہر نہ صرف بغاوت، سرکشی اور انحراف کے جذبات کو ختم کرتا ہے بلکہ انسانی ذہن کو زیادہ سوچنے کے عمل سے روک کر اسے بہت سی مشکلات سے بھی نجات بخش دیتا ہے۔ زیادہ سوچنے والے لوگ یعنی آزادانہ طور پر غوروفکر کرنے والے لوگ، جب سوچتے ہیں تو بُرے بھلے میں حدِّ فاصل قائم کرکے تعصب اور آویزش کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ سقراط اور گلیلیو ایسے ہی باغی لوگ تھے جو ہر وقت ذہن کو استعمال کرنے کی بدعادت میں مبتلا تھے۔ صبح و شام غور و فکر میں ڈوبے رہتے اور پھر اپنے باغیانہ خیالات سے اطاعت گزاروں کی نئی نسل کو بھی گمراہ کرتے۔ سب جانتے ہیں کہ ان’’ بدبختوں‘‘ کا انجام کیا ہوا۔ سچے اطاعت گزار آج بھی ان کے انجام سے عبرت پکڑتے ہیں۔
لیکن کیا واقعی؟۔
یہ سوال میں نے اپنے آپ سے کیا ہے اور اب اس کا جواب سوچ رہاہوں!
۔ ۔۔۔ظاہر ہے جواب سوچنے کے لئے اپنا ذہن استعمال کرنا پڑے گا اور اپنے ذہن کو استعمال کرنے والوں کا انجام مجھے(خاص طور پر مجھے) اچھی طرح معلوم ہے۔

***

یہ خیر و شرّ کے سلسلے

یہ خیر و شرّ کے سلسلے

خیر اور شر کی آمیزش اور آویزش سے نکھریں
بھول اور توبہ کرتے  سارے سانس بسر ہوجائیں

     میرے ایک فلم ساز دوست ص۔پ ہیں۔فلمسازی کے میدان میں دویادگارفلاپ فلمیں چھوڑنے کے علاوہ انہوں نے تیسری فلم مکمل کرکے ڈبے میں ہی بند کردی ہے۔ اپنی دوسری فلم میں انہوں نے ایک نئی لڑکی بطور ہیروئن کا سٹ کی۔ لیکن ابتدائی مرحلے میں ہی اسے دل دے بیٹھے، شادی کی بات طے ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے کوشش کرکے پوری فلم اسلامی مزاج کے مطابق بنائی۔ پوری فلم میں ہیروکو ہیروئن کے قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ بس دور ہی دور سے پیار کی پینگیں بڑھائی گئیں۔ ہیروئن کو برقع پہنایاگیا۔ رقص میں سر سے دوپٹہ نہیں اُترنے دیاگیا۔ فلم فلاپ ہوگئی لیکن فلم ساز اور ہیروئن کی شادی کامیاب رہی۔ خدا کرے آگے بھی کامیاب رہے۔ یہ تعارف تو ضمنی تھا۔ اصل بات مجھے یہ بتانا تھی کہ موصوف بے حد محبت کرنے والے انسان ہیں۔ جس سے محبت کرتے ہیں اسے اعلیٰ قسم کی شراب ضرور پلاتے ہیں۔ اکثر احباب محض شراب پینے کے شوق میں جان بوجھ کر اُن کی محبت کا شکار ہوتے ہیں۔ میں جب پہلی بار اُن کی محبت کی زد میں آیا تو انہوں نے بڑے خلوص سے اپنے گھر پر مدعو کیا اور بڑی محبت کے ساتھ کوئی مہنگی سی شراب میری تواضع کے لئے پیش کی۔ میں نے سلیقے سے معذرت کرلی اور انہیں بتایا کہ ابھی تک سگریٹ کے لطف سے بھی محروم ہوں۔ بس صرف شاعر دِکھنے کے لئے ایک دو تصویریں ایسی ضرور بنوالی ہیں کہ جیسے سگریٹ پی رہا ہوں۔ اس وقت تو موصوف نے رسمی حیرت کا اظہار کرکے مجھے چھوڑ دیا مگر میرے لئے ان کی محبت اسی طرح موجزن رہی۔ چند ملاقاتوں کے بعد وہ مجھے ایک فائیواسٹار ہوٹل میں لے گئے۔ ان کی ہیروئن بیگم بھی ساتھ تھیں۔ وہاں انہوں نے نے شراب کا آرڈر دے دیا۔ میں عجیب کشمکش میں مبتلا تھا۔ فائیو اسٹار ہوٹل کا ماحول، دوست کی محبت کی شدت اور ہیروئن بھابی کامسکراہٹیں بکھیرتا ہوا اصرار۔
۔۔۔۔ دل نے متعدد دلائل پیش کرنا شروع کردیئے۔ دیکھو یار! کسی کی محبت اور خلوص کو ٹھکرانا شراب پینے سے بڑا پاپ ہے۔ خود کو نیک سمجھنے والے متکبر ہو کر ابلیس قرار پاتے ہیں۔ اس مقام سے بچو۔تھوڑی سی شراب پی لو تاکہ خود کو بہت زیادہ نیک پاک نہ سمجھ سکو۔ احساسِ گناہ سے طبیعت میں سوز و گداز پیدا ہوگا اور پھر توبہ کی توفیق ملے گی۔ بے شک اللہ تعالیٰ بے حد غفورالرحیم ہے۔ ارے یار! جنت میں بھی تو شراب ملنے کی بشارت ہے۔ پتہ نہیں جنت میں داخلہ ملتا ہے یا نہیں۔ وہاں داخلہ نہ ہوا تو جہنم میں رہ کر بھی شراب کی لذت سے ناآشنا رہو گے۔ لعنت ہے ایسی جہنمی پر! ۔۔۔۔
دل کے دلائل ابھی جاری تھے ،لیکن شراب ختم ہوچکی تھی۔ اب میرے سامنے خالی جام دھراتھا۔ کوئی نشہ نہیں ہوا۔ بعد میں پتہ چلا یہ تو زیٹ تھی جس میں ۱۰فیصد الکوحل ہوتی ہے گویا کوکاکولا سے تھوڑی زیادہ تھی لیکن پھر بھی تھی تو شراب ہی۔ چنانچہ احساسِ گناہ غالب ہونے لگا۔ میری عادت ہے کہ کوئی بات دل پر بوجھ بننے لگے تو بیوی کو ضرور بتادیتا ہوں چنانچہ میں نے بیوی کو خط لکھ دیا کہ یہاں میں ایک دوست اور اس کی بیوی کا دل رکھنے کے لئے شراب کا ذائقہ چکھ چکا ہوں۔ ساتھ ہی اپنی بیوی کا دل رکھنے کے لئے مزید واضح کردیا کہ اس واقعہ سے رنجیدہ یا پشیمان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آخر یورپ پہنچ کر بھی مجھے وائن کا ذائقہ تو چکھنا ہی تھا۔ یوں گناہ کا احساس تو کم ہوگیا لیکن ایک سوال ذہن میں اٹھنے لگا۔ گناہ فی ذاتہٖ کیا ہے؟۔ پھر اس سوال سے منسلک متعدد ذیلی سوال اور حقیقت واضح ہونے لگی۔
۔۔ ۔۔دُنیا میں کوئی فعل فی ذاتہٖ اچھا یا برا نہیں ہے۔ کسی فعل کو آپ مکمل خیر یا شر قرار نہیں دے سکتے۔ مثلاً مرد اور عورت کے تعلق کا جنسی عمل ایک حقیقت ہے۔ مذہبی یا سماجی نقطۂ نظر سے معاملہ صرف یہ ہے کہ جب یہ تعلق شادی کی کاروائی کے بعد استوار ہوتا ہے تو عین ثواب قرار پاتا ہے اور اگر شادی کے بغیر استوار کرلیاجائے تو قابلِ نفرین! ۔ کسی انسان کو عام حالات میں قتل کردیا جائے تو ظلمِ عظیم قرار پاتا ہے لیکن اپنے وطن کی حفاظت کے نام پر جنگوں میں ہزاروں، لاکھوں انسان ہلاک کردیئے جاتے ہیں اور فخر کیاجاتا ہے۔ انسانوں کے قاتلوں کو ان کے کارناموں پر تمغے عنایت کئے جاتے ہیں۔ گویا جنسی عمل ہو یا قتل انسانی۔ اپنی ذات میں کوئی فعل نہ اچھا ہے نہ بُرا۔ اس کامذہبی، سماجی یا سیاسی تناظر اسے خیر یاشر کے خانے میں ڈالے گا۔
۔۔۔۔اگر دنیا کا یہ کارخانہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے اور اس نے ہر ذرّے میں خواص رکھے ہیں اور ہر ذی روح کو استعدادیں بخشی ہیں تو ہر ذی روح کا کمال یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے عطا کی گئی اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو کمال تک پہنچائے۔ اگر یہ فارمولا طے ہے تو پھر سور کو آپ لاکھ برا بھلا کہہ لیں اس بے چارے نے کرنا وہی کچھ ہے جو اسے قدرت کی طرف سے ودیعت کیاگیا ہے۔ سانپ میں ڈسنے کی استعداد اور بچھو میں ڈنک مارنے کی استعداد بھی تو خدا نے رکھی ہے۔ اگر سانپ کسی کو ڈستا ہے یا بچھو کسی کو ڈنک مارتاہے تو وہ ان کے لئے خیرہے کیونکہ وہ اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو بروئے کار لارہے ہیں۔ شر تو اُن کے لئے ہے جو اُن کا شکار ہو رہے ہیں۔ لہٰذا سُور ہو،سانپ ہو، بچھوہو یا میرے کرم فرما شیخ صاحب ۔ سب اپنے اپنے عمل میں، طور طریقوں میں حق بجانب ہیں۔
۔۔۔ ۔جرأت وغیرت اور غنڈہ گردی و ظلم میں تفریق کسی فعل کی نوعیت سے نہیں کی جاتی۔ فعل تو ایک ہی ہے۔ اگر ہمارے خلاف سرزد ہورہاہے تو غنڈہ گردی اور ظلم ہے اور اگر ہم اس کا ارتکاب کررہے ہیں تو یہ جرأت اور غیرت ہے۔ میرے ایک مرحوم دوست کہاکرتے تھے کہ ترقی پسندوں نے ادبی مارشل لا نافذ کیا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ویسا ہی طرزِ عمل بعض دینی ادب والوں نے بھی اپنا رکھا ہے تو وہ مسکرائے اور بولے بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن ہم اسے مارشل لا کی جگہ ماشاء اللہ کہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ سچ اور جھوٹ کا ہے۔ بعض لوگ صاف گوئی سے کہتے ہیں کہ دروغ مصلحت آمیز جائز ہے جبکہ بعض لوگ ہر طرح کے جھوٹ کو جھوٹ قرار دے کر بآوازِ بلند لعنتہ اللہ علی الکاذبین پڑھتے ہیں لیکن اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جھوٹ سے لے کر دھوکہ دہی تک سب حربے بھی استعمال کرجاتے ہیں اور پھر بڑی معصومیت کے ساتھ اسے مومنانہ فراست اور حکمت قرار دے دیتے ہیں۔ میرے کرم فرما شیخ صاحب بھی اسی قماش کے مومن ہیں۔ ایک دانشور دوست نے غالباً شیخ صاحب جیسے لوگوں کے لئے ہی کہا تھا کہ باوضو ہو کر گناہ کرتے ہیں اور گناہ کرنے کے بعد بھی باوضو رہتے ہیں۔
۔۔۔ ۔میرا اپناخیال ہے کہ ہر سچ میں کچھ نہ کچھ جھوٹ اور ہر جھوٹ میں کچھ نہ کچھ سچ ضرور ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص تاروں بھرا آسمان دیکھ کر کہے کہ میں اس وقت آسمان پر موجود اتنے سارے ستارے دیکھ رہاہوں، تویہ بات بالکل سچ ہوگی۔ اس کے باوجود اس میں غیرارادی جھوٹ بھی شامل ہوگا۔ کیونکہ حقیقتاً جن ستاروں کی روشنی ہم تک پہنچ رہی ہوتی ہے وہ اس وقت کی نہیں ہزاروں برس پہلے کی ہوتی ہے۔ اس طرح اگر کوئی شخص تیسری دنیا کے بعض ممالک کے غیر انسانی رویوں سے تنگ آکر مغربی ممالک میں سیاسی پناہ لیتاہے تو اس کا بیان عموماً ۹۹فی صد جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کا دکھ سچا ہوتا ہے اس لئے اس کے مداوا کے لئے دیا گیا اس کا جھوٹا بیان بھی سچ ہے۔ مکمل سچائی تو صرف خدا تعالیٰ کی ہستی ہے۔ باقی سب جزوی سچائیاں ہیں اس لئے اپنے جزو پر نازاں ہو کر کسی دوسرے پر انگلی اٹھانے والے کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسی وقت اس کی اپنی باقی ساری انگلیاں خود اُسی پر اٹھی ہوتی ہیں۔
۔۔۔ ۔تمام چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ سردی اور گرمی۔ بہار اور خزاں۔ دن اور رات۔ علم ریاضی کا سارا نظام جمع اور نفی پر قائم ہے۔ بجلی میں مثبت اور منفی مل کر کرنٹ پیدا کرتے ہیں۔ تمام جانداروں میں نر اور مادہ مل کر زندگی کو قائم رکھتے ہیں۔ زرتشت مسلک میں دو خداؤں کا تصور ہے۔ یزداں، خیر کا خدا۔ اور اہر من، شر کا خدا۔ دونوں کے درمیان ازل سے مقابلہ جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ خیر اور شر کی دو بڑی قوتوں کا تصور کسی نہ کسی رنگ میں ہر مذہب میں موجود ہے۔ خیر اور شر کی اسی آویزش اور آمیزش سے ہی تو کائنات رنگ برنگی لگتی ہے۔ یہ خیر و شر کے سلسلے کتنے خوبصورت ہیں۔
۔۔۔۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہیگل کی جدلیات کاجادو کتنا طاقتور ہے جو آج بھی ساری کائنات کے سر چڑھ کر بول رہا ہے
!
***

چشمِ تصوّر

چشمِ تصوّر

تمہارا حسنِ خدا داد تو نہ رہ پایا

مگر فقیر کا حسنِ خیال باقی ہے

         مجھے پانچ چھ سال کی عمر میں ہی خدا اور قیامت کے بارے میں ڈھیر ساری باتیں بتادی گئی تھیں، جن میں سے بہت کم باتیں میری سمجھ میں آسکیں۔تاہم ان تمام باتوں کا مجموعی تاثر ایک خوف کی صورت مجھ پر مسلّط ہوگیا۔ مکمل فنا(قیامت) کا تصوّر مجھ پر گھبراہٹ طاری کردیتا۔ میں چشمِ تصوّر سے دیکھتا کہ زمین، آسمان، چاند، سورج، ستارے کہیں کچھ نہیں ہے۔
   اس کے ساتھ ہی ایک ہولناک خلا کا تصوّر میرے ذہن میں آتا اور میرا دل جیسے اس خلا میں ڈوبنے لگتا۔ پھر کبھی میں چشمِ تصوّر سے دیکھتا کہ ساری کائنا ت تو موجود ہے لیکن انسان کا وجود نہیں ہے اور اس خیال کے ساتھ ہی مجھ پر ایک عجیب سا اضطراب طاری ہوجاتا اور میں خدا سے دعا کرنے لگتا کہ مولا!۔۔ میں بے شک نہ رہوں مگر یہ دنیا اور اس دنیا میں انسانی زندگی کو کبھی ختم نہ کرنا۔ دعا کرنے کے باوجود میں خدا کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں سوچ پاتا تھا۔ اس کی ہستی کو جاننے اور سمجھنے کی ایک اُلجھن سی رہی۔
۔۔۔۔ایک مدت کے بعد میرے چھوٹے بیٹے ٹیپو کی ایک معصومیت نے میرے بچپن کی اُلجھن دور کردی۔ میرے والد کی وفات پر ٹیپو کو معاملہ سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔ اس نے پوچھا کہ دادا اَبو کو کیاہوگیاہے، جاگتے کیوں نہیں؟۔ جب اسے بتایا گیا کہ اب وہ کبھی نہیں جا گیں گے کیونکہ اللہ میاں نے انہیں اپنے پاس بلالیا ہے تو دادا پوتے کی محبت کے جوش میں اس نے غصّے سے کہا: میں اللہ میاں کو ماردوں گا۔ اس پر اسے فوری طور پر سمجھانا پڑا کہ اللہ میاں کے بارے میں ایسی بات کہنا گناہ ہے کیونکہ وہ بہت بڑا ہے۔ اللہ میاں کی بڑائی کا سن کر ٹیپونے پوچھا: کیا اللہ میاں دادا اَبو سے بھی بڑا ہے؟ جب اسے باور کرایاگیا کہ وہ سب سے بڑا ہے تب اس نے اس کی بڑائی کا کچھ اندازہ لگایا۔ شاید چشمِ تصوّر سے کچھ دیکھا۔ اپنے دونوں بازو کھولے اور انہیں پیچھے کی طرف جتنا لے جاسکتا تھا، لے جاکر پوچھا: کیا اللہ میاں اتنا بڑا ہے؟۔ اسی لمحے میں مجھے جیسے اپنے بچپن کی سوچ کا جواب مل گیا۔ ایک چھوٹا سا بچہ جس حد تک اپنے بازو پھیلا سکتا ہے اسی حد تک بڑائی کا سوچ سکتا ہے۔ اس سے زیادہ بڑی شے اس کے نزدیک ہوہی نہیں سکتی۔ تب ہی مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ خدا کے بارے میں مختلف عقائد رکھنے والے تمام مذاہب اور فرقے خدا کے معاملے میں ایسے معصوم اور سچے چھوٹے بچے ہیں جنہوں نے خدا کی عظمت، مقام اور بڑائی کو سمجھنے کے لئے اپنے اپنے ننھے منّے بازو پھیلا رکھے ہیں۔ جس کے بازو جہاں تک پھیل سکتے ہیں اس نے اسی حد تک خدا کو سمجھ رکھا ہے اور دوسروں کو بھی وہی خدا منوانے پر مُصر ہے۔
۔۔۔۔پھر میں نے چشمِ تصوّر سے اس عظیم تخلیق کار کی تخلیق اس کائنات پر غور کیا تو اسی کی طرح اس کی تخلیق بھی بے انت نظر آنے لگی۔ کائنات کی بڑی سطح جس میں کروڑوں کہکشائیں، اربوں نظام شمسی اور کھرب در کھرب سیارے موجود ہیں اور جس کا کوئی انت معلوم نہیں ہوتا، اس کی انتہا معلوم کرنا تو دور کی بات ہے۔ سائنس ابھی تک چھوٹی کائنات یعنی ایٹم کا کوئی انت تلاش نہیں کرسکی۔ پہلے پہل کہاگیا کہ ایٹم مادے کا بلڈنگ بلاک ہے بعدمیں اسی ایٹم کے چالیس سے زائد پارٹیکلز دریافت ہوگئے۔ باتQUARKS تک پہنچی مگر پھر اس کے بھی مزید چھ کلرز سامنے آگئے۔QUARKS سے’’ہیڈرونز‘‘ بنتے ہیں۔’’نان ہیڈرونز‘‘ کس سے بنتے ہیں؟ اس کاابھی کوئی علم ہی نہیں ہے۔ گویا بڑی کائنات کی انتہا تو کجا چھوٹی کائنات کی انتہا بھی معلوم نہیں کی جاسکتی۔ بس ایک جہانِ حیرت ہے، اسے طے کیجئے تو آگے اس سے بھی بڑا جہانِ حیرت موجود ہوتا ہے۔ حیرانی کا یہ تہ در تہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا۔ شاید اسی لئے شاعر نے کہاتھا:

خداوندایہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ پیدا ہوگئے ہیں  اور حیرانی  نہیں جاتی
۔۔۔ ۔میرے ایک دانشور دوست نے لکھا تھا کہ سارے نظام شمسی، کہکشائیں اور بلیک ہولز دراصل ایک ایٹم کے الیکٹرون ہیں۔ اس انکشاف سے میں ایک مسرّت آمیز حیرت سے دوچار ہوا۔ واقعی اگر یہ ساری کائنات الیکٹرون کا درجہ رکھتی ہے تو یہ تو صرف ایک فی صد ہے۔ اگرچہ ہمارے لئے یہ ایک فی صد بھی بے انت ہے مگر ۹۹ فی صد تو نیوکلس کے اندر ہے اور نیوکلس کا پتہ ہی نہیں چل رہا۔ اپنے دانشور دوست کی اس بات پر حیرت اور مسرّت کے اُسی لمحے میں، میں نے چشمِ تصوّر سے دیکھا کہ ہماری دھرتی کے کسی ایک ایٹم کے کسی پارٹیکل میں کوئی مخلوق آباد ہے اور اس کے ’’سائنس دان‘‘ اپنی دھرتی کے ایٹم کی دریافت کے بعد اس کے پارٹیکلز پر تحقیق میں مشغول ہیں۔ تب مجھے زمان و مکان کی لامحدودیت کا کچھ اندازہ سا ہونے لگا۔
۔۔۔ ۔کون و مکان کی باتیں اپنی جگہ۔ ہماری اس دھرتی پر انسانی زندگی کی ساری ترقی چشمِ تصوّر کی عطا ہے۔ انسان نے پرندوں کو اڑتے ہوئے دیکھا تو اس کے دل میں پرواز کی ہلکی سی خواہش پیدا ہوئی۔اُس زمانے کے داستان گوؤں نے اس خواہش کی تکمیل کے لئے چشمِ تصوّر سے کام لیا اور پھر اُن کی داستانوں میں جن،دیو، پریاں، اُڑن قالین اور اُڑن کھٹولے پرواز کرنے لگے۔ ان داستانوں نے نسل در نسل انسانوں کے دل میں اڑنے کی خواہش جگائے رکھی جس کے نتیجہ میں آخر کار تیز رفتار سواریاں، ہوائی جہاز اور راکٹ تک ایجاد ہوگئے۔ دوسری تمام ترقیات کا تعلق بھی بنیادی طور پر چشمِ تصوّر سے ہے۔
۔۔۔۔ میں نے زندگی کاایک بڑا حصہ فلمیں دیکھے بغیر بسر کیاہے تاہم اس زمانے میں ، میں نے بے شمار گیت سنے تھے۔ پھر جب میں نے فلمیں دیکھنا شروع کیں تو اپنے پسندیدہ گیتوں میں سے کسی بھی گیت کی پکچرائزیشن مجھے اچھی نہیں لگی۔ دراصل گیت سنتے ہوئے ہمارے تصوّر کی آنکھ وا ہوتی ہے اور وہ اس گیت پر اپنی مرضی کاسین فلم بند کرتی ہے۔ ایسے سین میں جو بے پناہ معنویت ہوتی ہے ہماری چشمِ تصوّر کا کمال ہوتی ہے۔ جبکہ فلمی سین کسی نظریاتی نقاد کی طرح پارٹی لائن کے مطابق اسے محدود معنی میں بند کرکے اس کی وسعت میں روک بن جاتا ہے۔ اب کسی فلم میں میری پسند کاکوئی گیت آجائے تو میں اپنی دونوں آنکھیں موند کر چشمِ تصوّر وا کرلیتا ہوں۔ تب میں دیکھتا ہوں کہ اس سین کا ہیرو میں خود ہوں۔ میں خود وہ گیت گارہا ہوں۔ میری کوئی محبوبہ یا بعض اوقات مجبوراً میری بیوی میرے روبرو ہے۔ میرا انداز اتنا بے ساختہ اور فطری ہے کہ فلمی سین کے اداکار کی مصنوعی اداکاری اس کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتی۔ اگر ہیروئن کاگایا ہوا گیت ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ وہ جذبات میرے حضور پیش کئے جارہے ہیں۔ شاید اسی لئے جب میں کوئی خوبصورت گیت سنتا ہوں تووہ گیت سیّال صورت اختیار کرکے میری رگوں میں سرایت کرتا چلا جاتا ہے۔
۔۔۔۔چشمِ تصوّر انسان کو جینے کا حوصلہ بخشتی ہے۔کسی شخص کے حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں وہ چشمِ تصوّر سے اپنے آنے والے اچھے دن دیکھ سکتا ہے۔ چاہے بالکل نہ دکھائی دے رہے ہوں پھر بھی دیکھ سکتا ہے۔ دکھ اور تکلیف میں آرام اور سکون کا، سردی میں گرمی اور گرمی میں سردی کا، دجلہ میں قطرہ اور قطرہ میں دجلہ کا نظارہ کرسکتا ہے۔ میری پرانی محبتیں جو اَب بال بچوں میں گھِر کر محبت کے ہجّے تک بھول چکی ہیں، جن کے ڈھلکے ہوئے جسموں اور چہروں پر جھریوں کے آثار دنیاکو دید�ۂ عبرت نگاہ بناچکے ہیں۔ میں چشمِ تصوّر میں انہیں آج بھی اسی طرح جوان، شوخ اور سرسبز،شاداب دیکھ رہا ہوں جیسا وہ دس، پندرہ یا بیس سال پہلے تھیں۔ جوانی کے ایام پر ہی کیا موقوف ہے۔ جب بھی جی چاہتا ہے میں چشمِ تصوّر سے اپنے بچپن اور لڑکپن کے دنوں کو اسی طرح ہنستا کھیلتا دیکھ لیتا ہوں۔ امی، ابو، باباجی۔ جن بزرگوں اور عزیزوں کو فوت ہوئے زمانہ گزر گیا ہے انہیں بھی اُنہیں یادوں کے ساتھ اُسی حالت میں دیکھ لیتا ہوں۔ گویا چشمِ تصوّر پر نہ صرف زمان و مکان اثر انداز نہیں ہوپاتے بلکہ یہ ارواح کو بھی طلب کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔چشمِ تصوّر ہمیں جاگتے میں خواب دکھاتی ہے۔ لگن سچی اور قسمت اچھی ہوتو خوابوں کی تعبیریں بھی مل جاتی ہیں۔ لیکن جس طرح نیند میں دیکھے جانے والے کئی خواب بد ہضمی کانتیجہ ہوتے ہیں اسی طرح چشمِ تصوّر سے جاگتے میں دیکھے جانے والے بعض خواب بھی تصوراتی بد ہضمی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسے خوابوں کو شیخ چلی کے خواب بھی کہا جاتا ہے۔

***

اپنااپنا سچ

اپنااپنا سچ

کعبے میں جا کے یا کہیں پتھر تراش کر

ممکن ہو جس طرح بھی خدا کو تلاش کر

 دُنیا میں ہر گروہ اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ خود کو سچا سمجھتا ہے۔ ایساسمجھنے میں کوئی حرج نہیں۔ خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جب اپنی سچائی کا اعلان کرنے والا ساتھ ہی دوسروں کو جھوٹا بھی قراردے دیتا ہے۔ ہر شعبۂ حیات میں ہرگروہ اپنے حق بجانب ہونے کے دلائل بھی رکھتا ہے اور دوسروں کے جھوٹا ہونے کے ثبوت بھی پیش کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے کہ ہم کسے جھوٹاکہیں اور کسے سچا سمجھیں۔ شاید یہ معاملہ کچھ ایسے ہی ہے کہ جب کوئی خود کو سچا کہتا ہے تو گویا اپنے خوبصورت ہونے کا اعلان کرتا ہے لیکن پھر ساتھ ہی دوسروں کو بدصورت بھی قرار دیتا ہے۔ اصولاً کسی کو اپنی خوبصورتی کے ثبوت کے لئے دوسروں کی بدصورتی کو نمایاں کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر آپ خوبصورت ہیں تو کسی کی بدصورتی کی نشاندہی کئے بغیر بھی آپ خوبصورت ہیں، لیکن اگر آپ بدصورت ہیں تو بے شک سارے جہان کی بدصورتی ثابت کردیجئے اس سے آپ کا خوبصورت ہونا ثابت نہیں ہوسکے گا۔ چونکہ ہم اصلاًسچائی کی بات کر رہے ہیں اس لئے مختلف گروہوں اور افراد کی سچائیوں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہے اور ہر کسی کو اپنے اپنے سچ کی حفاظت کرنی چاہئے۔ نظریاتی سچ کی حفاظت نظریات پر عمل پیرا ہونے سے ہوتی ہے۔
۔۔۔۔آئینے کو ہمارے ہاں سچ کی بڑی علامت بنالیاگیا ہے اسی لئے ہر کوئی خود آئنہ دیکھنے کی بجائے دوسروں کو آئنہ دکھانے میں لگا ہوا ہے۔ بے شک عام طور پر آئینہ جو کچھ دیکھتا ہے وہی ہمیں دکھادیتا ہے۔ اس لحاظ سے آئنہ سچا بھی ہے لیکن کچھ اتنا زیادہ بھی سچا نہیں ہے۔ مثلاً کبھی کوئی تحریر آئینے کو دکھائیے، اچھی بھلی اُردو کو عبرانی تحریر بنا کر دکھادے گااور عبرانی بھی ایسی جو عبرانی کے استادوں کے پلّے بھی نہ پڑے۔ پھر ایسے آئینے بھی ہیں جو اچھی بھلی صورت کو بگاڑ کر دکھاتے ہیں۔ گورے چٹے رنگ کو کالا کرکے پیش کردیتے ہیں۔
۔۔۔۔آئینے کی طرح پانی کی سچائی میں بھی زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے گئے ہیں۔ حالانکہ مختلف رنگوں کے گلاسوں میں پانی ڈال کردیکھ لیں۔ ہرر نگ کے گلاس کا پانی اسی رنگ کے مطابق نظر آئے گا۔ اس کا شفّاف پن کہیں بھی نظرنہ آئے گا۔ اس کے باوجود پانی کی سچائی پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ اس کے برعکس گرگٹ بیچارے کو ہر کوئی لعن طعن کرتا ہے جبکہ اس کا گناہ اس سے زیادہ نہیں ہے کہ آئینے اور پانی کی طرح یہ بھی جو کچھ دیکھتا ہے یا جہاں سے گزرتا ہے اسی رنگ میں رنگین نظر آنے لگتا ہے۔ آئینہ، پانی اور گرگٹ تینوں اپنی اپنی جگہ سچے ہیں اور کسی ایک کی تعریف کرکے دوسرے کو مطعون کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کسی شے یا عمل کا جواز پیش کرنے والے ناجائز کو جائز اور جائز کو ناجائز بنانے کاہنر دکھاتے ہیں۔
۔۔۔۔اس دنیا میں اربوں کی تعداد میں انسان موجود ہیں۔ سب کے تمام اعضا ایک جیسے ہیں۔ اتنی گہری یکسانیت کے باوجود ہر انسان دوسرے سے کچھ نہ کچھ مختلف ضرور ہے۔اس کا دوسروں سے کچھ مختلف ہونا اس کی ذاتی شناخت ہے اور یہی اس کا ذاتی سچ ہے۔ پھولوں کو دیکھیں ہزار ہااقسام کے اور رنگا رنگ پھول ہیں۔ اس کے باوجود ہر پھول ایک قدرِ مشترک رکھنے کے باوجود ہر دوسرے پھول سے مختلف ہے۔ پھولوں، پودوں کو چھوڑیں، پتھروں کو دیکھ لیں۔ پتھروں کو جمع کرنے کا شوق رکھنے والے حضرات اور پتھروں سے سر پھوڑنے والے عشّاق بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا میں ایک جیسے دو پتھر بھی نہیں ملتے۔ گویا اصل سچائی بیک وقت یکسانیت اور اختلاف کے امتزاج سے اُبھرتی ہے۔ ان انفرادی مثالوں سے گروہی اور نظریاتی سچائیوں کی حقیقت کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ ہر گروہ کی اپنی اپنی سچائی ہے۔ اپنی اپنی سچائی کو ایک اورر نگ میں اپنی اپنی بیوی سے بھی مشابہت دے سکتے ہیں۔کسی کی خوبصورت بیوی کو دیکھ کر بعض لوگ بدنیت ہو کر اس پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں کامیابی نہ ہو تو پھر محرومی اور حسد کے باعث اس کی بدکرداری کی فرضی داستانیں گھڑ کر پھیلانے لگتے ہیں چاہے اس انہماک کے دوران اپنی بیوی کہیں اور مصرف عمل ہوچکی ہو ۔ ایک اچھے مرد کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنی بیوی پر قناعت کرے۔ دوسروں کی بیویوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کی بجائے اپنے اور اپنی بیوی کے مشترکہ تخلیقی عمل میں مگن رہے اور اسی طرح زندگی میں اضافہ کرکے زندگی کی جنت کا نظارہ کرتا رہے۔ اسی طرح مختلف نظریاتی گروہوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی اپنی سچائی کے ذریعے اپنی تعداد بڑھائیں، بلاوجہ دوسروں کی سچائیوں کو بدنیتی سے نہ دیکھیں اور نہ ہی حسد کے ساتھ ان پر الزام تراشی کریں۔ میں ان سارے نظریات کے ماننے والوں کو سلام کرتاہوں جو دوسروں کی عیب چینی کرنے کی بجائے صرف اپنی خوبیوں کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔
۔۔۔ ۔جس جگہ میرا گھر ہے، ایک پولٹری فارم اور ایک ڈیری فارم وہاں سے قریب پڑتے ہیں۔ ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر پولٹری فارم کے حوالے سے اپنی بات آگے بڑھانا مشکل ہے کہ اس سے تحریر میں فحاشیت پیدا ہوجانے کا ڈر ہے اس لئے ڈیری فارم کے حوالے سے ہی کچھ عرض کئے دیتا ہوں۔ ہر نظریہ اپنی جگہ خالص دودھ کی طرح ہے۔ مختلف بنیادی نظریات میں اس دودھ کی مقدار میں کمی بیشی مانی جاسکتی ہے۔مثلاًایک نظریہ بنیادی طور پر پانچ من دودھ کا سچ ہے اور دوسرا دَس من کا۔ سو دونوں میں خالص دودھ کی یکسانیت اور مقدار کافرق واضح ہے۔ اب قصہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ کوئی بھی بنیادی نظریہ مختلف تشریحات کے باعث، بعض رہنماؤں کی خواہشات کے باعث اور بعض اوقات زمانے کے تبدیل شدہ تقاضوں کے باعث تھوڑے وقفے کے بعد گروہ در گروہ ہونے لگتا ہے۔ پانچ من والے کے اگر ۵۰گروہ بن گئے تو مجموعی طور پر ہر گروہ کے حصے میں چار کلو دودھ آئے گا۔ لیکن چونکہ ہر گروہ کا دعویٰ ہوتا ہے کہ اس نظریے کا پورا اور خالص دودھ صرف ہمارے پاس ہے اس لئے انہیں بنیادی مقدار پوری کرنے کے لئے اس میں چار من ۳۶کلو پانی ملانا پڑتا ہے اور اتنی ملاوٹ کے باوجود (’’بانگ دہل‘‘ کے مصنف سے معذرت کے ساتھ) ببانگ دہل دعویٰ کریں گے کہ خالص اورپورا پانچ من دودھ صرف ہمارے پاس موجود ہے باقی سب جھوٹ بولتے ہیں۔ ایسے دعویداروں میں جو سادہ قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہ تو کثیر پانی ملادودھ ہی لئے بیٹھے ہوتے ہیں جس میں چار کلو دودھ موجود ہونے کے باوجود اپنے ’’نہ ہونے‘‘ کا اعلان کررہا ہوتا ہے۔ جبکہ بعض کاری گر قسم کے لوگ رنگ بازی سے کام لے کر پانی کو دودھیا کرلیتے ہیں چاہے اس میں مصنوعی دودھ پاؤڈر ملائیں چاہے چونا۔ مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ دیکھنے والا دھوکہ کھاجائے اور انہیں کو اس نظریے کا اصل محافظ مان لے۔
۔۔۔۔سچی بات یہ ہے کہ ہر نظریہ ایک جزوی سچائی ہے۔ کامل سچائی صرف اور صرف وہ حقیقتِ عظمیٰ ہے جو خالقِ کائنات ہے۔ جو اس کائنات میں جاری و ساری بھی ہے اور اس سے باہر بھی ہے جو ہر شے پر محیط ہے۔ اس کامل سچائی کا اپنی اپنی بساط کے مطابق صرف اندازہ کیا جاسکتا ہے، احاطہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ لامحدود ہے۔ جب ایک بوند روشنی کامالک جگنو سورج کی اصل تپش کا اندازہ نہیں کرسکتا اور ایک قطرہ سمندر کی وسعت اور گہرائی کا ادارک نہیں کرسکتا تو ہم سارے انسان اس عظیم ہستی، اس لامحدود سچائی کا ادراک کیسے کرسکتے ہیں جس کے لئے کامل سچائی کا لفظ بھی نامکمل لگتا ہے۔

***

تجربہ اورتجربہ کاری

تجربہ اورتجربہ کاری

چالاکی کہاں آتی تھی حیدرؔ کو مری جان
بس  تیری  اداؤں  کی  کرامات   سے  آئی

  زندگی کے تجربات اور تجربہ کاری دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ زندگی کے تجربات زندگی کو معصومانہ حیرت سےدیکھنے اور پھر اس کی جستجو کے سفر سے عبارت ہیں۔ یہ حیرت اور جستجو اجتماعی نوعیت کی ہے کیونکہ اس سے پوری انسانیت فیض یاب ہوتی ہے ۔ پتھر کے زمانے سے کمپیوٹر کے زمانے تک انسانی زندگی کے تجربات کے ثمرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ جستجو کے اس سفر میں انسان اپنے ہر قدم پر حیرت میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر اسی معصومانہ حیرت کے ساتھ جستجو کا اگلا قدم اٹھاتا ہے۔ اس کے برعکس تجربہ کاری کی ساری کاری گری ذاتی نوعیت کی ہے۔ اس سے محض کوئی شخص، گروہ یا طبقہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ فائدے کے حصول کے لئے ہر جائز و ناجائز حربے کو بروئے کارلایا جاتا ہے۔ اسی لئے تجربہ کاری انسانی معصومیت پر کاری ضرب ہے ۔ یہ کسی معصوم بچے کا گرگِ باراں دیدہ بن جانے کا المیہ ہے۔
۔۔۔ ۔جمالیاتی حس رکھنے والے لوگ فطرت کے مناظر اور مظاہر کو دیکھ کر انوکھی سی روحانی آسودگی محسوس کرتے ہیں جبکہ تجربہ کاری کے ہنر سے آشنا لوگ ایسی روحانیت کو فضولیات میں شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ مسکراتے ہوئے گلاب دیکھ کر گلقند بنانے کا پلانٹ لگانے پر غور کرتے ہیں،پہاڑوں کو دیکھ کر بجری کے بزنس کاسوچتے ہیں، دریاؤں کو دیکھ کر کسی بھی ضروری یا غیر ضروری جگہ پر ایک اور پُل بنوانے کی اسکیم کی منظوری اور پھر اس کا ٹھیکہ اپنے ہاتھ میں رکھنے کی تدبیر کرتے ہیں، جنگلات انہیں لکڑی چوری کرانے پر اکساتے ہیں۔ ہر چیز میں مادی افادیت کا پہلو انہیں اپنی طرف بلالیتا ہے۔ ہمارے افادی ادب والے حضرات کا رویّہ بھی ادب کے ساتھ کچھ ایسا ہی رہا ہے۔ افادی ادب کی تجربہ کاری نے انہیں بڑی حد تک ادب سے ہی بے نیاز کردیا ہے۔ تجربہ کار افادی ادب والے ادبا اچھا ادب بے شک تخلیق نہ کر سکیں افادی ادب اور اپنی تجربہ کاری کی برکت سے مادی فوائد ضرور حاصل کرلیتے ہیں۔ نجی افادیت کی اہمیت سے آشنا ہونے کے بعد بے شمار ذاتی فوائد کی خواہشات کے سامنے انہیں ادب بے حد حقیر لگتا ہے۔ محض ایک آلہ۔۔ چنانچہ ایسے لوگ ادب کو آلۂ کار بناکر فائدے سمیٹتے رہتے ہیں۔
۔۔۔۔ مجھے ایک شعلہ بیان مقرر کی چند تقریریں سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے یہ بات شدّت سے نوٹ کی کہ کسی غم انگیز واقعہ کے بیان کے وقت شدّتِ غم سے ان کا گلا رندھ جاتا ہے آواز کی لرزش سے انداز ہ ہوتا ہے کہ موصوف کے آنسو بھی نکل آئے ہوں گے۔ لیکن گلا رندھنے کی کیفیت ختم ہونے سے پہلے ان کی شعلہ بیانی پھر اپنا جادو جگانے لگتی۔ میں نے اپنی ذات کے حوالے سے بہت غور کیا۔ اگر مجھ پر غم کی حالت طاری ہو اور گلا رندھ جائے تو بے شک آنسو نکلیں یا نہ نکلیں، دیر تک میری آواز نہیں نکل پاتی۔ میں کوشش کرنے کے باوجود بول نہیں پاتا چہ جائیکہ اسی لمحے شعلہ بیانی کرسکوں۔ چنانچہ میں نے مذکورہ شعلہ بیان مقرر کے ایک مرید سے ان کے مرشد کی کیفیت اور اپنی کیفیت کے فرق کا سبب پوچھا تو خوش عقیدہ مرید نے اسے مرشد کی کرامت قرار دیا لیکن اس کے ایک پیر بھائی جو کچھ کھلّے ڈلّے سے آدمی تھے کہنے لگے یہ ہمارے مرشد کے وسیع تجربے کا ثمرہے۔ ا ن کا لہجہ بتارہاتھا کہ وسیع تجربے سے ان کی مراد یہی تجربہ کاری تھی۔ یہ وہی تجربہ کاری ہے جو اپنی عیاری کو حکمت اور دوسروں کی دفاعی حکمت کو بھی مکاری قرار دیتی ہے۔
۔۔۔ ۔تجربہ کاری۔۔۔ اخلاص، محبت، دیانتداری، ذاتی شرافت اور دیگر اعلیٰ انسانی اوصاف کو چنداں اہمیت نہیں دیتی۔یہ تمام اوصاف رکھنے کے باوجود اگر کوئی تجربہ کار لوگوں کے فائدے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر حارج ہو رہا ہے تو اپنی تمام تر انسانی خوبیوں کے باوجود وہ راندۂ درگاہ ہے۔ اس کے برعکس اگر ٹھگ، لٹیرے، غنڈے اور قاتل قسم کے لوگوں سے مشن کو تقویت مل رہی ہے تو ان کے اخلاص، محبت، دیانت اور شرافت کے گن گائے جائیں گے۔ تجربہ کاری کا یہ اصول ہے کہ جو چیز اپنے مطلب اور فائدے کے مطابق ہے وہی سچائی ہے، باقی سب جھوٹ ہے۔ خدا کی سچی عبادت جو اپنا اجر آپ ہوتی ہے، تجربہ کار لوگوں نے اس کی لذّت بھی جنّت کی لالچ اور دوزخ کے خوف سے جوڑدی ہے۔ شاید اسی لئے حضرت رابعہ بصری کو وہ دعا مانگنا پڑی جس میں خدا کی عبادت کسی بھی لالچ اور خوف سے پاک نظر آتی ہے اور جس کی لذّت ہی سب سے بڑی جنت ہے۔
۔۔۔۔یوں تو دنیا کے سارے ڈپلومیٹس تجربہ کاری کے زائیدہ ہیں لیکن دنیا کی واحد سپر پاور کے ڈپلومیٹس نے تجربہ کاری کی انتہاؤں کو چھُو لیا ہے۔ جن مخصوص ممالک سے ان کے مفادات وابستہ ہیں وہاں کسی کو کانٹا بھی چبھ جائے تو واشنگٹن میں ان ڈپلومیٹس کا بچہ بچہ بے تاب ہوجاتا ہے لیکن جن خطّوں سے ان کے مفادات لگّا نہیں کھاتے، وہاں انسانی خون بیدردی کے ساتھ پانی کی طرح بھی بہایا جارہا ہو تو ان کی بے فکری دیدنی ہوتی ہے۔ یہ ڈپلومیٹس دنیا بھر میں جمہور یت کے نفاذ کے علمبردار ہیں لیکن اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے بعض ملکوں میں نہ صرف بادشاہتوں کو تحفّظ فراہم کرتے ہیں بلکہ جہاں اپنا فائدہ نظر آئے وہاں جمہوریت کاخاتمہ کرکے فوجی آمریت بھی مسلّط کردیتے ہیں۔ یہ کھیل تماشہ محض ڈپلومیسی یا سیاست نہیں بلکہ تجربہ کاری کا کمال ہے۔
۔۔۔ ۔علم ایک ایسا سمندر ہے جس میں انسان جتنا آگے بڑھتا ہے یہ اتنا ہی وسیع اور گہرا ہوتا چلاجاتا ہے۔ چنانچہ علم کے حصول میں آگے بڑھنے والا جتنا آگے بڑھتا ہے اتنا ہی اس کی علمی بے مائیگی کااحساس بڑھتا جاتا ہے لیکن تجربہ کاری کا ہنر جاننے والوں کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اپنے واجبی علم کی خامیوں کو چھپا کر بڑی مہارت کے ساتھ اپنے علم کااظہار کریں گے۔ ایسے ہی ایک تجربہ کار صاحبِ علم کو جب میں نے بتایا کہ میں فارسی زبان نہیں جانتا تو انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ پڑھے لکھے لوگوں میں اس کااظہار نہ کرنا ورنہ تمہاری سبکی ہوگی کہ اُردو کاادیب ہے اور فارسی نہیں جانتا۔ میں نے مودبانہ گزارش کی کہ میں جتنا ہوں اتنا ہی دِکھنا چاہتا ہوں( جتنا دِکھتا ہوں یارلوگوں کو اتنا بھی دُکھتا ہوں) پھر اس میں سُبکی کہاں سے آگئی؟ لیکن موصوف پھر بھی پورے خلوص سے مجھے اپنی نصیحت پر عمل کرنے کی تاکید کرتے رہے۔ ان کی تجربہ کاری آج بھی ان کے کام آرہی ہے۔ ان پر کیا موقوف۔ ہمارے ہاں مجلسی نوعیت کے ناقدین اور ’’صاحبانِ علم‘‘ اپنی تجربہ کاری کا آپ ثبوت ہیں۔
۔۔۔ ۔میں ابتدا میں کسی معصوم بچے کی طرح سادہ تھا۔ جس سے محبت اور خلوص کا اظہار کرتا اس سے سچ مچ محبت اور خلوص کا رشتہ محسوس ہوتا۔ رفتہ رفتہ دوسروں کے رویّوں سے مجھے احساس ہونے لگا کہ میں کسی’’ پینڈو‘‘ کی طرح کسی بہت بڑی آبادی والے شہر کی پُر ہجوم ٹریفک میں گھِر گیاہوں۔ رشتے، دوستیاں، محبت، ادب، ٹریڈیونین، مذہب۔ زندگی کے ہر شعبے میں مجھے بے لوث اور محبت کرنے والے لوگ بھی نصیب ہوئے ہیں لیکن زیادہ تر میں لوگوں کی تجربہ کاری کا نشانہ بنتا رہاہوں۔ یارلوگ میری سادگی اور خلوص سے فائدہ بھی اٹھاتے اور بعد میں اس سادگی اور خلوص کو میری بیوقوفی قرار دے کر مجھ پر ہنستے۔ فائدے اٹھا کر آنکھیں بدل لینے والے دوستوں اور تضحیک کرنے والے کرم فرماؤں کے رویوں پر میں ایک عرصے تک حیران ہوتا رہا۔ لیکن اب میری حیرانی ختم ہوتی جارہی ہے۔ یارلوگوں کی تجربہ کاری کا نشانہ بنتے بنتے شاید میں بھی اب تھوڑا بہت تجربہ کار ہوگیا ہوں۔
پتہ نہیں تجربہ کار ہوگیاہوں یااس خوش فہمی میں مبتلا ہوں!
***