Freitag, 15. Juli 2011

نقاب

نقاب

حیدربھید جہاں کے جیسے خواب کے اندر خواب
ایک   نقاب    اگر    اُلٹیں   تو   آگے   اور  نقاب
 
 اگلے روز ایک شاپنگ سنٹر پر خریداری کرتے ہوئے میری دو واقف خواتین سے ملاقات ہوئی تو مجھے پہلی بار ایک حیرت انگیز حقیقت سے آشنائی ہوئی۔ ان میں سے ایک خاتون خاصی خوبصورت تھی اور ایک نہایت بدصورت لیکن برقع پہننے کا انداز اور آدھے نقاب کاکمال تھا کہ خوبصورت خاتون تو پہلے سے بڑھ کر خوبصورت لگ رہی تھی، بدصورت خاتون بھی حیرت انگیز طور پر خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ تب میں نے پہلی دفعہ نقاب کے بارے میں غور کیا تو مجھ پر منکشف ہوا کہ نقاب نہ صرف حسن کو مزید نکھارتا ہے بلکہ عیوب کوڈھانپ کر ان میں بھی ایک حسن پیدا کردیتا ہے۔ مزید غور کرنے پرمجھے انسانی ذہن اور خواتین کے نقاب کے ارتقا کی کہانیاں ایک دوسرے سے مربوط نظر آنے لگیں۔
۔۔۔ ۔شٹل کاک برقع اس دور کی بات ہے جب انسان خود کو اور کائناتی رموز کو جاننے کے لئے سرگرداں ہونے لگا تھا۔ پھر جب ریشمیں برقع پورے نقاب کے ساتھ آیا تو گویا انسان(ایک حد تک) اپنی ذات اور کائنات کی گتّھیاں جان چکا تھا اور انہیں سلجھانے میں مشغول تھا۔ ریشمیں برقع پورے نقاب سے آدھے نقاب تک آیا تو انسان بھی حیرت انگیز انکشافات اور ایجادات کے دور میں آگیا۔ جوں جوں خواتین کا نقاب ارتقا کے مزید مرحلے طے کرتا جائے گا انسانی ذہن بھی اپنی اور کائناتی دریافت کے عمل میں اسی رفتار سے آگے بڑھتا جائے گا۔
۔۔۔۔ ویسے دنیا میں ہر شخص نے نقاب اوڑھ رکھا ہے۔ تاجر، ادیب، ملا، پنڈت، افسر، ملازم، دوکاندار، خریدار، سیاستدان۔ کیا یہ سب لوگ بظاہرجیسے نظر آتے ہیں حقیقتاً ویسے ہیں؟ یہ سب لوگ محبت،خلوص، ایمان اور سچائی وغیرہ کے نقاب اوڑھ کر نفرت، ریاکاری اور جھوٹ کے کھیل کھیلتے ہیں لیکن ان کے نقابوں نے ان کے عیوب کو ڈھانپ رکھا ہے۔
۔۔۔ ۔انسانی چہرہ بجائے خود ایک نقاب ہے جس میں سے کبھی کبھی اس کے اندر کا حیوان جھانکتا ہوا نظر بھی آجاتا ہے۔ اندر کا فرشتہ تو اکثر چہرے پر ہی ملتا ہے۔ کون ہے جو کسی دوسرے انسان کو پوری طرح جاننے کا دعویٰ کرسکے۔ انسان دوسروں کے لئے تو نقاب میں ہے ہی۔ خود اپنے لئے بھی وہ نقاب میں ہے۔ کوئی انسان آج تک خود کوپوری طرح نہیں دیکھ سکا، نہ ہی تاحال کوئی ایسا آئینہ دریافت ہو سکا ہے جو انسان کے اندر کے سارے بھید اس پر کھول سکے۔ اسی لئے تو سلطان باہوؒ نے کہا ہے
:
دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہوُ
سطح سمندر کا پانی بھی دراصل ایک نقاب ہے جس نے اس کے اندر کی ایک پوری آباد دنیا کو چھپا رکھا ہے۔ پھر یہ دھرتی بھی ایک نقاب ہے جس کے اندر چھپے ہوئے پُر اسرار خزانے تمام تر معدنی اور آتش فشانی دریافتوں کے باوجود ابھی تک نقاب میں ہیں۔ اس سے بھی آگے دیکھیں تو یہ پوری کائنات ہی ایک نقاب ہے جس کے عقب میں خالقِ کائنات کا مسکراتا ہوا،اَن دیکھا حسن ہے۔ اس کائناتی نقاب سے جھانکتے ہوئے چاند،سورج، کہکشائیں اور کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں ستارے، اسی نقاب کے عقب میں موجود ازلی حسن کی ہلکی سی جھلک دکھاکر ہمیں بے تاب کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اگر ساری کائنات بنانے کے ساتھ ایسا نقاب نہ اوڑھا ہوتا تو اس کی تلاش اور جستجو کا وہ سفر پھر کہاں ہوتا جو بڑے بڑے سادھو اور صوفی ہزاروں برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ گویا نقاب ہمیں سکوت اور ٹھہراؤ کی حالت سے اٹھاکر متحرک کرتا ہے۔ تجسّس کی آگ ہمارے سینوں میں بھڑکاکر ہمیں سفر پر روانہ کرتا ہے اور پھر سفر بھی چوتھے کھونٹ کا۔ چنانچہ انسان کی چاند کی طرف اورپھر اس سے بھی آگے کی طر ف کا سفر ہو یا کسی عاشقِ صادق کا آدھے نقاب والے محبوب کے تعاقب میں اس کے گھر کا سفر ہو، سب اسی چوتھے کھونٹ کے سفر کی داستانیں ہیں۔
۔۔۔۔نقاب معلوم کے جہنم اور نامعلوم کی جنت کے درمیان عالمِ برزخ ہے۔ نقاب کی پُراسراریت ہمارے تجسّس کو بڑھاتی ہے۔ نقاب اوڑھنے والا خود ہی سب کو نہیں دیکھ رہا ہوتا، دوسرے بھی اس کی موجودگی کا لطیف احساس رکھتے ہیں لیکن موجودگی کے اس احساس کی لطافت اس اسرار کے ساتھ بندھی ہوتی ہے کہ وہ نقاب کے باعث دکھائی دے کر بھی دکھائی نہیں دے رہا ہوتا۔’’ہونے‘‘’’نہ ہونے‘‘ کی یہ لذّت صرف نقاب کی بدولت ممکن ہے۔ اگر ہر شے بے نقاب ہوتی تو کسی شے میں کوئی جاذبیت نہ رہتی۔ ہر شے معلوم، دیکھی بھالی، جانی پہچانی ہوتی تو ہم پر یکسانیت، بے زاری اور اُکتاہٹ طاری کردیتی۔ لیکن یہاں تو نقاب درنقاب سلسلے ہیں۔ کسی شے یا شخصیت کا ایک نقاب ہٹائیں تو اندرسے ایک اور جہانِ حیرت ایک اور نقاب سے جھانکتا نظر آئیگا۔ پھر اس نقاب کو ہٹائیں تو ایک اور نقاب اور ایک اور جہانِ حیرت و تجسّس! اسی لئے ادب میں معلوم کی دریافت ایک احمقانہ فعل ہے یا کم از کم سطحی عمل ہے جبکہ نامعلوم کی دریافت ہی اصل تخلیقی سچائی ہے۔
۔۔۔ ۔انسانی جسم بھی ایک نقاب ہے جسے روح نے اوڑھ رکھا ہے۔ روح جسم سے نکل کر فنا نہیں ہوتی بلکہ موت کا نقاب اوڑھ کر اس میں زندگی بن کے دھڑکنے لگتی ہے۔ زمانے کی ماہئیت پر سنجیدگی سے غور کریں تو ماضی سے مستقبل تک زمانہ نقاب اوڑھے نظر آتا ہے۔ مستقبل کے پورے مگر باریک نقاب میں سے ہرلحظہ جھانکتا ہوا’’حال‘‘ پلک جھپکتے ہی ماضی کے آدھے نقاب کی اوٹ میں چلاجاتا ہے اور ہم اس لمحے کو چھونے کی،پوری طرح دیکھنے کی خواہش دل میں ہی لئے رہ جاتے ہیں۔
۔۔۔ ۔ڈپلومیسی کا نقاب آج کل بہت عام ہے۔ عام زندگی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر شعبۂ حیات میں اس نقاب کو بے حد پسند کیا جارہا ہے۔ اس کے رواج سے پرتکلف اخلاقیات کا فروغ ہو رہا ہے۔ بعض سر پھرے اسے منافقت قرار دیتے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ نقصان سر پھروں کا ہی ہوتا ہے۔خوشامد اور چاپلوسی کا نقاب اوڑھ کر لوگ بڑے بگڑے کام بھی ٹھیک کرالیتے ہیں۔ یہ ایسا خوبصورت اور دلآویز نقاب ہے جو کسی بھی طرح کے بڑے سے بڑے اور اصول پرست رہنما کو بھی مغلوب کرلیتا ہے۔
۔۔۔۔ دبیز نقاب جب کسی معقول انسان کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ عاشقِ زار بن کر محلے کے شرفا کے لئے متعدد مسائل پیدا کردیتا ہے لیکن جب یہی نقاب کسی ادیب کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ بے سر و پا نظمیں یا مضمون نما خط قسم کی چیزیں لکھ کر اپنے آپ میں ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔
شاید نفسیاتی مسئلہ!
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen